تشریح:
1۔ اس حدیث میں موسیٰ ؑ کا کوہ طور پر بے ہوش ہونے کا ذکر ہے۔ اس کی تفصیل آیت بالا میں بیان ہوچکی ہے۔ اس آیت سے معتزلہ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے اور نہ آخرت ہی میں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَن تَرَانِي﴾ "تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا" اس میں ہمیشہ کی نفی ہے، لیکن معتزلہ کا یہ مؤقف صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اورجنت میں بھی دیدارالٰہی ہوگا۔ اس نفی روئیت کا تعلق صرف دنیا سے ہے کہ دنیا میں کوئی آنکھ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرمادے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوے کو برداشت کرسکیں گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس روز بہت سے چہرے خوش وخرم ہوں گے اور اپنے رب سے محودیدار ہوں گے۔" (القیامة:22:23:75)
2۔ اللہ تعالیٰ کے موسیٰ ؑ سے محو کلام ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ بغیر کسی واسطے کے سب زبانوں میں، ان کے لب ولہجے اور الفاظ وحروف میں کلام کرسکتا ہے جبکہ فرقہ جہمیہ اللہ تعالیٰ کے اس طرح کلام کرنے کے منکر ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کے خلاف خیال کرتے ہیں۔ ان کا یہ مؤقف قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے خلاف ہے جس کی تفصیل ہم کتاب التوحید میں بیان کریں گے۔