باب: مسجد میں جھاڑو دینا اور وہاں کے چیتھڑے، کوڑے کرکٹ اور لکڑیوں کو چن لینا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Sweeping (cleaning) of the mosque and removing rags, dirt and sticks from it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
464.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، وہ فوت ہو گیا تو نبی ﷺ نے لوگوں سے اس کی بابت پوچھا؟ انھوں نے کہا: وہ توفوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بھلا تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی؟ اچھا اب مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں نماز جنازہ ادا کی۔
تشریح:
1۔ ایک عورت مسجد نبوی کی خدمت کیا کرتی تھی، ذکر کردہ روایت میں شک کا صیغہ استعمال ہوا ہے کہ وہ عورت تھی یا مرد تھا، لیکن بعض روایات میں عورت کا تعین ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت حماد کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق وہ عورت تھی۔ (حدیث:460) پھر ابن خزیمہ کی روایت میں صراحت ہے کہ وہ عورت تھی بیہقی میں اس کی کنیت ام مجحن بتائی گئی ہے۔ ابن مندہ نے اس کا نام خرقاء لکھاہے۔ ایک روایت کے مطابق جس شخص نے اس کی وفات کے متعلق آپ کو مطلع کیا تھا وہ جناب ابوبکرصدیق ؓ تھے۔ (فتح الباري:715/1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں ایسی چیزیں ذکر کی ہیں جن کی تفصیل حدیث میں نہیں ہے، البتہ(يَقُمُّ الْمَسْجِدَ) کے الفاظ ان تمام چیزوں کو شامل ہیں، کیونکہ ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسجد نبوی کاتمام کوڑا کرکٹ، یعنی چیتھڑے ، لکڑی کا چورا اور تنکے اور گردوغبار سب چیزوں کو جھاڑ دے کر مسجد سے باہر پھینکتی تھی۔ اس کے علاوہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان کے الفاظ سے ذکرکردہ حدیث کے دیگر طرق کی طرف اشارہ کردیتے ہیں، چنانچہ صحیح ابن خذیمہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد سے خس وخاشاک چننے میں خصوصیت شغف رکھتی تھی۔ اور بیہقی ؒ میں ہے کہ وہ مسجد سے بوسیدہ کپڑے اور لکڑی کا چورا وغیرہ چنتی رہتی تھی۔ ان روایات میں ان تمام چیزوں کو بیان کیا گیا جو امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان میں ذکر کی ہیں۔ گویا امام بخاری نے اپنے ذوق کےمطابق عنوان بالا سے حدیث کے دیگر طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فت (فتح الباري:715/1) 2۔ قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق ہم اپنے موقف کی وضاحت آئندہ کتاب الجنائز میں کریں گے۔ بإذن اللہ۔ البتہ اس بات کاذکر کرنا ضروری ہے کہ مسجد کی صفائی کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑ دینے کی خدمت کوئی معمولی خدمت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
454
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
458
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
458
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
458
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، وہ فوت ہو گیا تو نبی ﷺ نے لوگوں سے اس کی بابت پوچھا؟ انھوں نے کہا: وہ توفوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بھلا تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی؟ اچھا اب مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں نماز جنازہ ادا کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک عورت مسجد نبوی کی خدمت کیا کرتی تھی، ذکر کردہ روایت میں شک کا صیغہ استعمال ہوا ہے کہ وہ عورت تھی یا مرد تھا، لیکن بعض روایات میں عورت کا تعین ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت حماد کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق وہ عورت تھی۔ (حدیث:460) پھر ابن خزیمہ کی روایت میں صراحت ہے کہ وہ عورت تھی بیہقی میں اس کی کنیت ام مجحن بتائی گئی ہے۔ ابن مندہ نے اس کا نام خرقاء لکھاہے۔ ایک روایت کے مطابق جس شخص نے اس کی وفات کے متعلق آپ کو مطلع کیا تھا وہ جناب ابوبکرصدیق ؓ تھے۔ (فتح الباري:715/1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں ایسی چیزیں ذکر کی ہیں جن کی تفصیل حدیث میں نہیں ہے، البتہ(يَقُمُّ الْمَسْجِدَ) کے الفاظ ان تمام چیزوں کو شامل ہیں، کیونکہ ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسجد نبوی کاتمام کوڑا کرکٹ، یعنی چیتھڑے ، لکڑی کا چورا اور تنکے اور گردوغبار سب چیزوں کو جھاڑ دے کر مسجد سے باہر پھینکتی تھی۔ اس کے علاوہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان کے الفاظ سے ذکرکردہ حدیث کے دیگر طرق کی طرف اشارہ کردیتے ہیں، چنانچہ صحیح ابن خذیمہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد سے خس وخاشاک چننے میں خصوصیت شغف رکھتی تھی۔ اور بیہقی ؒ میں ہے کہ وہ مسجد سے بوسیدہ کپڑے اور لکڑی کا چورا وغیرہ چنتی رہتی تھی۔ ان روایات میں ان تمام چیزوں کو بیان کیا گیا جو امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان میں ذکر کی ہیں۔ گویا امام بخاری نے اپنے ذوق کےمطابق عنوان بالا سے حدیث کے دیگر طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فت (فتح الباري:715/1) 2۔ قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق ہم اپنے موقف کی وضاحت آئندہ کتاب الجنائز میں کریں گے۔ بإذن اللہ۔ البتہ اس بات کاذکر کرنا ضروری ہے کہ مسجد کی صفائی کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑ دینے کی خدمت کوئی معمولی خدمت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو انتقال کر گئی۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، پھر آپ قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
بیہقی کی روایت میں ہے کہ ام محجن ؓ نامی عورت تھی، وہ مسجد کی صفائی ستھرائی وغیرہ کی خدمت انجام دیا کرتی تھی، آپ ﷺ اس کی موت کی خبرسن کر اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں اس کا جنازہ ادا فرمایا، باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ مسجد کی اس طرح خدمت کرنا بڑا ہی کارِثواب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A black man or a black woman used to sweep the mosque and he or she died. The Prophet (ﷺ) asked about her (or him). He was told that she (or he) had died. He said, "Why did you not inform me? Show me his grave (or her grave)." So he went to her (his) grave and offered her (his) funeral prayer."