تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد واضح ہے کہ اگر کسی ضرورت کی وجہ سے سواری کو مسجد میں لانا پڑے تو اس میں چنداں حرج نہیں ہے، اگرچہ عہد رسالت میں خانہ کعبہ کے چاروں طرف کوئی دیوارنہیں تھی، مسلمان کھلی زمین میں بیت اللہ کے چاروں طرف نمازیں پڑھا کرتے، پھر حضرت عمر رضی ؓ نے جب تنگی محسوس کی تو توسیع فرما کر چاروں طرف دیواریں تعمیر کرا دیں۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3805) تاہم ہرطرف مکانات اور آبادی کی وجہ سے خانہ کعبہ کے چاروں طرف مسجد حرام کی حدود متعین تھیں ۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہے کہ مجبوری کی صورت میں سواری کو مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل اور حضرت اُم سلمہ ؓ کو آپ کی اجازت سے معلوم ہوتا ہے۔ 2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے سواری پر طواف کرنے کی ایک توجیہ شرح تراجم بخاری میں لکھی ہے، فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ کا طواف کی حالت میں اونٹ پر سوار رہنا عمرۃ القضاء کا واقعہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین کی شرارت اور چالاکی کا خطرہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے سوار رہنے کی وجہ سے وہ آپ ﷺ پر قابو نہ پا سکے۔‘‘