تشریح:
1۔ ایک داعی حق کے لیے اس میں سبق ہے کہ جب وہ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کرچکے اور پھر بھی کوئی نہ مانے تو ان سے اعراض کرلیا جائے اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیاجائے۔ اگراس موقع پر شیطان اشتعال دلانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگرآپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو آپ فوراً اللہ کی پناہ مانگیں، بلاشبہ وہ خوب سننے والاجاننے والا ہے۔‘‘ (الأعراف:200/7)
2۔ عیینہ نے حضرت عمر ؓ کو عام بادشاہوں کی طرح خیال کیا جو جاہل مصاحبوں پر قومی خزانہ لٹا دیتے ہیں بلکہ اس نے سخت مزاجی اور ترش روئی کا کا مظاہرہ کیا لیکن حضرت عمر ؓ نے اللہ کی کتاب کا حکم سن کر صبر اور تحمل سے کام لیا، اگر کوئی دوسرا بادشاہ ہوتا تو اس طرح کی بے ادبی پر سزا دیتا۔ حضرت عمرفاروق ؓ کا ایمان اور ان کا اخلاص سمجھنے کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے۔