قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {خُذِ العَفْوَ وَأْمُرْ بِالعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الجَاهِلِينَ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: ‘ الْعُرْفُ الْمَعْرُوفُ:

4642. حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَ مِنْ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ يَا ابْنَ أَخِي هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ فَاسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ قَالَ سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ هِيْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَوَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ وَلَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ أَنْ يُوقِعَ بِهِ فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِينَ وَإِنَّ هَذَا مِنْ الْجَاهِلِينَ وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 «العرف»، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔

4642.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حضرت حر بن قیس کے ہاں قیام کیا۔ حضرت حر بن قیس ان خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر ؓ اپنے بہت قریب رکھتے تھے کیونکہ جو لوگ قرآن کریم کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے انہیں حضرت عمر ؓ کی مجلس میں بڑی پذیرائی حاصل ہوتی تھی۔ ایسے لوگ ہی آپ کے مشیر ہوتے تھے، قطع نظر اس سے کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ بہرحال عیینہ بن حصن نے اپنے بھتیجے سے کہا: تمہیں اس امیر کی مجلس میں بڑا قرب حاصل ہے، لہذا مجھے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا: میں آپ کے لیے مجلس میں حاضری کی اجازت مانگوں گا، چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت مانگی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ جب وہ مجلس میں پہنچا تو کہنے لگا: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تم ہمیں مال دیتے ہو اور نہ عدل کے مطابق فیصلے ہی کرتے ہو۔ حضرت عمر ؓ کو اس کی بات پر بہت غصہ آیا۔ حضرت عمر ؓ  اسے مزہ چکھانے کے لیے آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حضرت حر بن قیس نے عرض کی: امیر المومنین! اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: "آپ درگزر اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔" اور بلاشبہ یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔ اللہ کی قسم! جب حضرت حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو حضرت عمر ؓ وہیں رُک گئے۔ واقعی حضرت عمر ؓ  کتاب اللہ کا حکم سن کر فورا گردن جھکا دینے والے تھے۔