Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Servants for the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ( قرآن کی اس آیت ) “ جو اولاد میرے پیٹ میں ہے، یا اللہ! میں نے اسے تیرے لیے آزاد چھوڑنے کی نذر مانی ہے ” کے متعلق فرمایا کہ مسجد کی خدمت میں چھوڑ دینے کی نذر مانی تھی کہ ( وہ تا عمر ) اس کی خدمت کیا کرے گا۔تشریح : سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی والدہ کا یہ قصہ مذکور ہے۔ حالت حمل میں انھوں نے نذر مانی تھی کہ جو بچہ پیدا ہوگا مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی۔ مگرلڑکی حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ توان کوہی نذر پوری کرنے کے لیے وقف کردیاگیا۔ معلوم ہوا کہ مساجد کا احترام ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اوران کی خدمت کے لیے کسی کو مقرر کردینا درست ہے جیسا کہ آج کل خدام مساجد ہوتے ہیں۔
466.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، ایک عورت ۔۔ یا مرد ۔۔ مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا ۔۔ راوی حدیث ابورافع کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق وہ عورت ہی تھی ۔۔ پھر انھوں نے نبی ﷺ کی حدیث نقل فرمائی کہ آپ ﷺ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی دیکھ بھال کے لیے خادم رکھنا سنت قدیمہ ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ اسے ابوحاتم ؒ نے اپنی تفسیر میں موصولاً بیان کیا ہے۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مساجد کی خدمت کے لیے خادم کا تقررجائز ہے۔ جیسا کہ حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگردوسرے حضرات خدمت کرنا چاہیں تو ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، نیز اس خدمت کے لیے جس شخص کا تقرر ہوگا، وہ بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے نائب کے طور پر کام کرے گا، کیونکہ اہل محلہ مل کر اس کی خدمت کریں گے۔ چونکہ یہ ضرورت سے ہے اس بنا پر اس خدمت کے عوض تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔ یہ روایت تفصیلاً پہلے (458) گزر چکی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے خدمت مسجد کی عظمت اور اہمیت کا پتہ چلتاہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے باز پرس فرمانے پر یہ معذرت کی گئی کہ آرام کا وقت تھا ہم لوگوں نے خیال کیا کہ آپ کو بیدار کرنے میں زحمت ہوگی، اس لیے آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات تاریک تھی، اس لیے اس حادثے کواہمیت نہیں دی گئی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان حضرات نے خادمہ کے معاملے کو معمولی خیال کیا کہ ایک بے سروسامان مسجد کی خادمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کا یہاں خویش واقارب بھی نہیں ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس کی عظمت واہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑودینے کی خدمت کو معمولی کام نہیں خیال کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر جنازہ پڑھنے کے بعد فرمایا:’’ان قبروں میں اہل قبور پر تاریکی چھائی رہتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے قبروں کو ان کے لیے منور کردیتاہے۔‘‘ (صحیح المسلم ، الجنائز، حدیث:2215 (956))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
456
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
460
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
460
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
460
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ مسجد کے لیے خدام کا تقرر دوسرے مسلمانوں کو اس خدمت سے محروم کے لیے نہیں کیا جاتا، وہ حضرات شوق سے خدمت مسجد بجا لائیں۔ خدام کی تعینائی کا رواج امم سابقہ سے چلا آرہا ہے جس کو اسلام نے بھی باقی رکھا ہے، چنانچہ حضرت عمران کی بیوی نے نذر مانی تھی کہ ان کے بطن سے جو لڑکا پیدا ہو گا اسے دنیا کے تمام کاموں سے آزاد کر کے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی، مگر لڑکا پیدا ہونے کی بجائے حضرت مریم پیدا ہوئیں تو انہیں ہی نذر پوری کرنے کے لیے وقف کر دیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے ( قرآن کی اس آیت ) “ جو اولاد میرے پیٹ میں ہے، یا اللہ! میں نے اسے تیرے لیے آزاد چھوڑنے کی نذر مانی ہے ” کے متعلق فرمایا کہ مسجد کی خدمت میں چھوڑ دینے کی نذر مانی تھی کہ ( وہ تا عمر ) اس کی خدمت کیا کرے گا۔تشریح : سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی والدہ کا یہ قصہ مذکور ہے۔ حالت حمل میں انھوں نے نذر مانی تھی کہ جو بچہ پیدا ہوگا مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی۔ مگرلڑکی حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ توان کوہی نذر پوری کرنے کے لیے وقف کردیاگیا۔ معلوم ہوا کہ مساجد کا احترام ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اوران کی خدمت کے لیے کسی کو مقرر کردینا درست ہے جیسا کہ آج کل خدام مساجد ہوتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، ایک عورت ۔۔ یا مرد ۔۔ مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا ۔۔ راوی حدیث ابورافع کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق وہ عورت ہی تھی ۔۔ پھر انھوں نے نبی ﷺ کی حدیث نقل فرمائی کہ آپ ﷺ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی دیکھ بھال کے لیے خادم رکھنا سنت قدیمہ ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ اسے ابوحاتم ؒ نے اپنی تفسیر میں موصولاً بیان کیا ہے۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مساجد کی خدمت کے لیے خادم کا تقررجائز ہے۔ جیسا کہ حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگردوسرے حضرات خدمت کرنا چاہیں تو ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، نیز اس خدمت کے لیے جس شخص کا تقرر ہوگا، وہ بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے نائب کے طور پر کام کرے گا، کیونکہ اہل محلہ مل کر اس کی خدمت کریں گے۔ چونکہ یہ ضرورت سے ہے اس بنا پر اس خدمت کے عوض تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔ یہ روایت تفصیلاً پہلے (458) گزر چکی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے خدمت مسجد کی عظمت اور اہمیت کا پتہ چلتاہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے باز پرس فرمانے پر یہ معذرت کی گئی کہ آرام کا وقت تھا ہم لوگوں نے خیال کیا کہ آپ کو بیدار کرنے میں زحمت ہوگی، اس لیے آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات تاریک تھی، اس لیے اس حادثے کواہمیت نہیں دی گئی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ان حضرات نے خادمہ کے معاملے کو معمولی خیال کیا کہ ایک بے سروسامان مسجد کی خادمہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کا یہاں خویش واقارب بھی نہیں ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھ کر اس کی عظمت واہمیت کو اجاگر فرمایا کہ مسجد میں جھاڑودینے کی خدمت کو معمولی کام نہیں خیال کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر جنازہ پڑھنے کے بعد فرمایا:’’ان قبروں میں اہل قبور پر تاریکی چھائی رہتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے قبروں کو ان کے لیے منور کردیتاہے۔‘‘ (صحیح المسلم ، الجنائز، حدیث:2215 (956))
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت عمران کی بیوی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے، انہوں نے کہا: "(اے میرے ررب!) جو بچہ میرے بطن میں ہے میں نے اس کے متعلق نذر مانی ہے کہ اسے تیرے لیے آزاد چھوڑ دوں۔" حضرت ابن عباس ؓ نے (اس کی تفسیر کرتے ہوئے) فرمایا: اس نے مسجد کے لے آزاد چھوڑ دینے کی نذر مانی تھی کہ وہ اس کی خدمت کیا کرے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ثابت بنانی کے واسطہ سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ ایک عورت یا مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ ابورافع نے کہا، میرا خیال ہے کہ وہ عورت ہی تھی۔ پھر انھوں نے نبی کریم ﷺ کی حدیث نقل کی کہ آپ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Rafi (RA): Abu Hurairah (RA) said, "A man or a woman used to clean the mosque." (A sub-narrator said, 'most probably a woman.’) Then he narrated the Hadith of the Prophet (ﷺ).