قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: أَيْ نَاصِرُنَا، السَّكِينَةُ فَعِيلَةٌ مِنَ السُّكُونِ»

4663. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ حَدَّثَنَا أَنَسٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ فَرَأَيْتُ آثَارَ الْمُشْرِكِينَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ رَفَعَ قَدَمَهُ رَآنَا قَالَ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ «معنا» یعنی ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔ «سكينة»، «فعيلة» کے وزن پر سكون سے نکلا ہے۔حضرت امام بخاری اور جملہ اہل حدیث نے اللہ پاک کی معیت سے یہی مراد لی ہے کہ اس کا علم سب کے ساتھ ہے اور اس کی مدد مومنوں کے ساتھ ہے۔(بہتر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کی کسی طرح کی بھی تاویل نہ کی جائے اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے معیت بھی اللہ کی صفت ہے جیسی اس کی شان کے لائق ہے ویسی ہی ہم بھی مانیں گے۔(محمود الحسن اسد)

4663.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر ؓ نے بتایا، وہ کہتے ہیں کہ میں غار میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھ کر عرض کی: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’ان دو کے متعلق تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالٰی ہو۔‘‘