تشریح:
1۔ واقعہ یہ ہے کہ جس وقت امیر معاویہ ؓ نے وفات پائی اور ان کے فرزند یزید نے حکومت سنبھالی تو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نےان کی بیعت سے انکارکردیا۔ جب یزید فوت ہوا تو انھوں نے اپنی بیعت کے لیے لوگوں کو دعوت دی، چنانچہ اہل حجاز، مصر، عراق، خراسان اور اکثر اہل شام نے ان کی بیعت کرلی۔ حضرت ابن عباس ؓ ان دنوں مکہ مکرمہ میں تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے انھیں بلایا اور انھیں اپنی بیعت کے لیے کہا لیکن انھوں نے بیعت سے انکارکردیا اور کہا کہ جب تمام لوگ متفق ہو جائیں گے ہم بیعت کریں گے۔ حضرت ابن زبیر ؓ نے ان پر سختی کی جس کی وجہ سے لوگ بھی ان کی بیعت سے پیچھے ہٹ گئے۔ جب یہ خبر مختاربن ابوعبید ثقفی کو پہنچی تو اس نے لشکر بھیج کر حضرت ابن عباس ؓ کو مکے سے نکال لیا اور انھوں نے طائف میں جاکر اقامت اختیار کرلی۔ اس دوران میں حضرت ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ آپ ان کی بیعت کیوں کرتے ہیں؟ تو انھوں نے ان کے اوصاف حمیدہ بیان کیے جو حدیث میں بیان ہوئے ہیں، پھر شکوے کے انداز میں فرمایا: ابن زبیر ؓ نے ہماری پروانہیں کیا اور نہ ہمارا کچھ خیال ہی رکھاہے، جب یہ ہمارا خیال نہیں کرتے تو بنوامیہ جو ہم سے زیادہ قریب ہیں، اگر وہ میرے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو میرے لیے قابل قبول ہیں اور ان کا دائرہ حکومت بھی دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے جبکہ ابن زبیر ؓ کی حکومت کا دائرہ وسیع ہونے کی بجائے تنگ ہورہا ہے۔
2۔ بہرحال اس حدیث میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا ذکر تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔