قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: أَيْ نَاصِرُنَا، السَّكِينَةُ فَعِيلَةٌ مِنَ السُّكُونِ»

4665. حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ وَكَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ فَغَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَتُحِلَّ حَرَمَ اللَّهِ فَقَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَبَنِي أُمَيَّةَ مُحِلِّينَ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُحِلُّهُ أَبَدًا قَالَ قَالَ النَّاسُ بَايِعْ لِابْنِ الزُّبَيْرِ فَقُلْتُ وَأَيْنَ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْهُ أَمَّا أَبُوهُ فَحَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الزُّبَيْرَ وَأَمَّا جَدُّهُ فَصَاحِبُ الْغَارِ يُرِيدُ أَبَا بَكْرٍ وَأُمُّهُ فَذَاتُ النِّطَاقِ يُرِيدُ أَسْمَاءَ وَأَمَّا خَالَتُهُ فَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُ عَائِشَةَ وَأَمَّا عَمَّتُهُ فَزَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ خَدِيجَةَ وَأَمَّا عَمَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَدَّتُهُ يُرِيدُ صَفِيَّةَ ثُمَّ عَفِيفٌ فِي الْإِسْلَامِ قَارِئٌ لِلْقُرْآنِ وَاللَّهِ إِنْ وَصَلُونِي وَصَلُونِي مِنْ قَرِيبٍ وَإِنْ رَبُّونِي رَبُّونِي أَكْفَاءٌ كِرَامٌ فَآثَرَ التُّوَيْتَاتِ وَالْأُسَامَاتِ وَالْحُمَيْدَاتِ يُرِيدُ أَبْطُنًا مِنْ بَنِي أَسَدٍ بَنِي تُوَيْتٍ وَبَنِي أُسَامَةَ وَبَنِي أَسَدٍ إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَاصِ بَرَزَ يَمْشِي الْقُدَمِيَّةَ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ وَإِنَّهُ لَوَّى ذَنَبَهُ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ «معنا» یعنی ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔ «سكينة»، «فعيلة» کے وزن پر سكون سے نکلا ہے۔حضرت امام بخاری اور جملہ اہل حدیث نے اللہ پاک کی معیت سے یہی مراد لی ہے کہ اس کا علم سب کے ساتھ ہے اور اس کی مدد مومنوں کے ساتھ ہے۔(بہتر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کی کسی طرح کی بھی تاویل نہ کی جائے اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے معیت بھی اللہ کی صفت ہے جیسی اس کی شان کے لائق ہے ویسی ہی ہم بھی مانیں گے۔(محمود الحسن اسد)

4665.

حضرت ابن ابی ملیکہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ کے درمیان کسی معاملے میں کچھ اختلاف تھا۔ میں صبح صبح حضرت ابن عباس ؓ کے ہاں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ ابن زبیر ؓ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس طرح آپ اللہ کے حرم کو حلال خیال کریں گے؟ تو انہوں نے فرمایا: معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالٰی نے ابن زبیر ؓ اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ حرم پاک کی بے حرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں تو کسی صورت میں اس بے حرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھے ابن زبیر ؓ کی بیعت کے متعلق کہا تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے ان کی خلافت تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے؟ ان کے والد نبی ﷺ کے حواری تھے۔ آپ کی مراد زبیر بن عوام ؓ سے تھی، ان کے نانا رسول اللہ ﷺ کے یار غار تھے۔ ان کا اشارہ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف تھا، ان کی والدہ، یعنی حضرت اسماء ؓ ذات نطاقین تھیں۔ ان کی خالہ حضرت عائشہ‬ ؓ  ا‬م المومنین تھیں۔ ان کی پھوپھی حضرت خدیجہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں، نیز نبی ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ‬ ؓ  ا‬ن کی دادی ہیں، پھر وہ خود بھی اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن مجید کے عالم ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر بنو امیہ میرے ساتھ صلہ رحمی کریں گے تو وہ قرابت اور رشتے داری کی وجہ سے میرے ساتھ صلہ رحمی کریں گے اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو حکومت کریں کیونکہ وہ ہمارے ہم پلہ اور عزت والے ہیں لیکن عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو ابن تویت، بنو اسامہ اور بنو حمید کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد بنو اسد کے مختلف قبائل، یعنی ابن تویت، بنو اسد اور بنو اسامہ سے تھی۔ دوسری طرف ابن ابی العاص (یعنی عبدالملک بن مروان) بڑی عمدگی سے پیش قدمی کر رہا ہے اور اس کے برعکس ابن زبیر ؓ نے تو دم دبالی ہے۔