تشریح:
1۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہےکہ درج ذیل آیت کریمہ بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی: ’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ہدایت والوں سے وہی خوب واقف ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1386)
2۔ چونکہ نبی کریمﷺ کو چچا کے غیر مسلم مرنے کا بہت زیادہ افسوس تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آپ کا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے لیکن ہدایت کے راستے پر چلانا یہ ہمارا کام ہے۔ آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں ہم اپنا کام کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ ماجدہ کے لیے بھی استغفار کی اجازت طلب کی لیکن آپ کو اس سے منع کردیا گیا جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (القصص56:28۔ وصحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1360)
3۔ بہرحال مشرکین کے لیے د عائے مغفرت کرنے کی اجازت نہیں، البتہ ان کی ہدایت کے لیے دیا کی جاسکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوس قبیلے کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ!انھیں ہدایت دے اور انھیں میرے پاس بھیج دے۔ (مسند أحمد:355/5)