تشریح:
1۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبے کے چابی برادر حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا ان سے چابی طلب کی اور خانہ کعبہ کھول کر اندرداخل ہوئے وہاں نماز پڑھی، ہجوم کے پیش نظر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ باب کے دو اجزاء ثابت ہوگئے کہ خانہ کعبہ میں دروازہ بھی تھا اور اسے بوقت ضرورت بند بھی کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے دس خاندانوں کے درمیان عزت و شرافت کے کام تقسیم تھے جن میں پانی پلانے کی خدمت بنو ہاشم سے متعلق تھی اور بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی تھی اور اس کی نگرانی بھی ان کے سپرد تھی۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی عبدالدار کی اولاد سے تھے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ سے چابی طلب کی تو انھوں نے اسے پیش کردیا خطبہ دیتے وقت چابی آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ چابی ہمیں دی جائے تاکہ سقایہ زمزم کے ساتھ کلیہ برداری کا شرف بھی حاصل ہو جائے، لیکن آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے آل ابی طلحہ! یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھارے پاس رہے گی، ظالم اور غاصب کے علاوہ اسے تم سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔‘‘ 2(المعجم الکبیر للطبراني:11/120۔ فیه عبد اللہ بن مؤمل قال ابن حجر ضعیف الحدیث) ۔اس روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ سے یہ بات نسیان کا شکار ہو گئی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟ جبکہ حدیث نمبر397۔میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے دورکعت پڑھی تھیں ابن حجر ؒ نے اس کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ حضرت بلال ؓ نے اشارے سے بتایا تھا عبد اللہ بن عمر ؓ نطق سے وضاحت کرنا بھول گئے تھے۔ ( فتح الباري:648/1) واللہ أعلم۔