باب: جب کوئی شخص اسلام لائے تو اس کو غسل کرانا اور قیدی کو مسجد میں باندھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To take a bath on embracing Islam and fasten a prisoner in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح بن حارث ( کندی کوفہ کے قاضی ) قرض دار کے متعلق حکم دیا کرتے تھے کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیا جائے۔
468.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک گھڑ سوار دستہ نجد کی طرف روانہ کیا۔ وہ بنوحنیفہ کے ایک شخص کو گرفتار کر کے لائے جسے ثمامہ بن اُثال ؓ کہا جاتا تھا اور اسے انهوں نے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ’’ثمامہ کو چھوڑ دو۔‘‘ چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے باغ میں گیا، وہاں غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں، یعنی وہ مسلمان ہو گیا۔
تشریح:
ثمامہ بن اثال ؓ والی روایت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ محرم 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کی زیر سرکردگی تیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر مشتمل ایک دستہ علاقہ نجد کی طرف روانہ فرمایا۔ انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مدینہ طیبہ کی طرف جارہے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ان کا راستہ روک کر سردار اثامہ بن اثال ؓ کوگرفتار کرلیا، پھر انھیں مدینہ منور ہ لایا گیا اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیاگیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ثمامہ سے پوچھا:’’اے ثمامہ! تیرا کیاخیال ہے؟‘‘وہ بولا میرا خیال بہتر ہے اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان کریں گے تو شکر گزار پر احسان ہوگا اور اگر آپ مال چاہیں تو جو آپ کہیں پیش کردیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ یہ جواب سن کر واپس ہوگئے۔ دوسرے دن پھر یہی سوال وجواب ہوئے۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ پھر آپ نے حکم دیاکہ ثمامہ کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ اسے رہاکردیاگیا۔ وہ فوراً مسجد کے قریب ایک باغ میں گیا، غسل کیا اور مسجد میں آگیا، پھر کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمداللہ کے رسول ہیں۔ پھر کہنے لگا:اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کی قسم! مجھے تمام ر وئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی سے دشمنی نہ تھی اوراب آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ اللہ کی قسم!مجھے آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین بُرا معلوم نہ ہوتاتھا اوراب آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ بھلا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے بُرا کوئی شہر نہ تھا اوراب آپ کاشہر میرے نزدیک سب شہروں سے بڑھ کر پسندیدہ ہے۔ آپ کے سواروں نے جب مجھے گرفتار کیا تو میں عمرے کاارادہ کررہا تھا اب آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟رسول اللہ ﷺ نے اسے مبارک بار دی اور اسے عمرے کا حکم دیا، چنانچہ وہ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ چلا آیا تو کسی نے اس سے کہا کہ تو بے دین ہوگیا ہے؟وہ بولا نہیں، بلکہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لاکر مسلمان ہوگیا ہوں۔ اب تمہارے دین کی طرف رجوع نہیں کروں گا۔ اللہ کی قسم! اب تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا ،ہاں!اگررسول اللہ ﷺ اس کی اجازت فرمادیں گے تو الگ بات ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372) اس تفصیلی روایت سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دونوں جزثابت ہوگئے کہ کسی غیر مسلم کو مسجد میں محبوس کیاجاسکتا ہے اور اسلام لانے سے قبل غسل کرنے مسئلہ بھی ثابت ہوگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
458
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
462
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
462
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
462
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
قاضی شریح بن حارث ( کندی کوفہ کے قاضی ) قرض دار کے متعلق حکم دیا کرتے تھے کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک گھڑ سوار دستہ نجد کی طرف روانہ کیا۔ وہ بنوحنیفہ کے ایک شخص کو گرفتار کر کے لائے جسے ثمامہ بن اُثال ؓ کہا جاتا تھا اور اسے انهوں نے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ’’ثمامہ کو چھوڑ دو۔‘‘ چنانچہ وہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے باغ میں گیا، وہاں غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں، یعنی وہ مسلمان ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
ثمامہ بن اثال ؓ والی روایت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ محرم 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کی زیر سرکردگی تیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر مشتمل ایک دستہ علاقہ نجد کی طرف روانہ فرمایا۔ انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مدینہ طیبہ کی طرف جارہے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ان کا راستہ روک کر سردار اثامہ بن اثال ؓ کوگرفتار کرلیا، پھر انھیں مدینہ منور ہ لایا گیا اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیاگیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ثمامہ سے پوچھا:’’اے ثمامہ! تیرا کیاخیال ہے؟‘‘وہ بولا میرا خیال بہتر ہے اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان کریں گے تو شکر گزار پر احسان ہوگا اور اگر آپ مال چاہیں تو جو آپ کہیں پیش کردیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ یہ جواب سن کر واپس ہوگئے۔ دوسرے دن پھر یہی سوال وجواب ہوئے۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ پھر آپ نے حکم دیاکہ ثمامہ کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ اسے رہاکردیاگیا۔ وہ فوراً مسجد کے قریب ایک باغ میں گیا، غسل کیا اور مسجد میں آگیا، پھر کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمداللہ کے رسول ہیں۔ پھر کہنے لگا:اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کی قسم! مجھے تمام ر وئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی سے دشمنی نہ تھی اوراب آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ اللہ کی قسم!مجھے آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین بُرا معلوم نہ ہوتاتھا اوراب آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ بھلا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے بُرا کوئی شہر نہ تھا اوراب آپ کاشہر میرے نزدیک سب شہروں سے بڑھ کر پسندیدہ ہے۔ آپ کے سواروں نے جب مجھے گرفتار کیا تو میں عمرے کاارادہ کررہا تھا اب آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟رسول اللہ ﷺ نے اسے مبارک بار دی اور اسے عمرے کا حکم دیا، چنانچہ وہ بغرض عمرہ مکہ مکرمہ چلا آیا تو کسی نے اس سے کہا کہ تو بے دین ہوگیا ہے؟وہ بولا نہیں، بلکہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لاکر مسلمان ہوگیا ہوں۔ اب تمہارے دین کی طرف رجوع نہیں کروں گا۔ اللہ کی قسم! اب تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا ،ہاں!اگررسول اللہ ﷺ اس کی اجازت فرمادیں گے تو الگ بات ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372) اس تفصیلی روایت سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دونوں جزثابت ہوگئے کہ کسی غیر مسلم کو مسجد میں محبوس کیاجاسکتا ہے اور اسلام لانے سے قبل غسل کرنے مسئلہ بھی ثابت ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح، قرض دار کے متعلق حکم دیتے تھے کہ اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے ( جو تعداد میں تیس تھے ) یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال ؓ تھا پکڑ کر لائے۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ اور ( تیسرے روز ثمامہ کی نیک طبیعت دیکھ کر ) آپ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ ( رہائی کے بعد ) وہ مسجد نبوی سے قریب ایک کھجور کے باغ تک گئے۔ اور وہاں غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا: أشهد أن لا إله إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اثر قاضی شریح کو معمرنے وصل کیا، ایوب سے، انھوں نے ابن سیرین سے، انھوں نے قاضی شریح سے کہ وہ جب کسی شخص پر کچھ حق کا فیصلہ کرتے توحکم دیتے کہ وہ مسجد میں قیدرہے۔ یہاں تک کہ اپنے ذمہ کا حق اداکردے۔ اگروہ ادا کردیتا توخیر ورنہ اسے جیل بھیج دیاجاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل عدالتوں میں عدالت ختم ہونے تک قید کا حکم سنادیا جاتاہے۔ حضرت ثمامہ ؓ کایہ واقعہ دسویں محرم 6 ھ میں ہوا۔ یہ جنگی قیدی کی حیثیت میں ملے تھے۔ مگررسول اکرم ﷺ نے ازراہِ کرم انھیں آزاد کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) sent some horsemen to Najd and they brought a man called Thumama bin Uthal from Bani Hanifa. They fastened him to one of the pillars of the mosque. The Prophet (ﷺ) came and ordered them to release him. He went to a (garden of) date-palms near the mosque, took a bath and entered the, mosque again and said, "None has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is His Apostle (ﷺ) (i.e. he embraced Islam)."