تشریح:
1۔ مشہور قرآءت ﴿كُذِبُوا﴾ (تخفیف کے ساتھ) ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو یہ قراءت نہ پہنچی ہو اور انھوں نے ظن بمعنی یقین خیال کر کے اس قراءت کا انکار کردیا۔ ان کے نزدیک اس قراءت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پیغمبروں سے جو وعدے کیے تھے وہ جھوٹ پر مبنی تھے اس لیے انھوں نے انکار کردیا۔ حالانکہ تخفیف کی صورت میں مطلب یہ ہے کہ کافروں کو یہ گمان ہوا کہ پیغمبروں نے عذاب آنے کے جو وعدے ان سے کیے تھے وہ سب غلط اور جھوٹ ثابت ہوئے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ہاں آپہنچی۔
2۔ اس کی مکمل بحث ہم نے سورہ بقرہ آیت:214۔ اورحدیث:4524۔