تشریح:
1۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے ذکر اور حصول علم کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا جائز ہے۔ ان تینوں احادیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر مسجد ہو کر آپ کی مجلس سے استفادہ کرنا مذکورہے۔ اسی طرح کسی عالم سے استفادہ، چونکہ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے، لہذا امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہو گیا۔ چونکہ اس قسم کے استفادہ چونکہ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عنوان ثابت ہو گیا۔ (شرح ابن بطال: 120/2) 2۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں حلقہ بنانے پر اظہار ناگواری فرمایا تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وقت حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا ’’کیا بات ہے میں تمھیں الگ الگ ٹکڑوں میں دیکھ رہا ہوں؟‘‘ اس روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ کی پیش کردہ مذکورہ روایات سے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے کا جواز ثابت ہے۔ اور جن روایات سے اظہار ناگواری معلوم ہوتا ہے وہ ایسے حلقے ہیں جو بے ضرورت اور بلا فائدہ ہوں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حلقوں کو انتشار پسندی کی علامت قراردیا ہے۔ ایک حلقہ بنانے سے دلوں کا اتفاق اور ان کا متحدہ ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن حلقہ بنا کر بیٹھنے میں اگر کوئی مصلحت ہو جیسے تعلیم کے لیے دائرے کی صورت میں بیٹھنا تو اس کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:728/1) 3۔ پہلی دونوں احادیث سے مسجد میں بیٹھنے کا جواز ثابت ہے جن میں آپ کے خطبہ دینے کا ذکر ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیٹھ کر سننا ثابت ہے اور تیسری روایت میں عنوان کے دوسرے جز یعنی حلقہ بنا کر بیٹھنے کاذکر ہے۔ پہلی اور دوسری روایت سے بھی امام بخاری ؒ کا مدعا بایں طور ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے ارشادات سننے کے لیے آپ کے چاروں طرف سامنے کی سمت میں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، کیونکہ وہ ہر طرف سے آپ کی طرف اپنا رخ کیے ہوئے بیٹھے تھے۔ گویا بیٹھنے کا ثبوت تو صراحت کے ساتھ ہے اور حلقہ بنا کر بیٹھنے کا ثبوت دلالت سے نکلتا ہے، تیسری روایت میں تو حلقہ بنا کر بیٹھنے کی صراحت ہے۔ چونکہ آپ کے پاس تین شخص آئے ایک واپس چلا گیا اور بقیہ دو آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے جن میں سے ایک نے دیکھا کہ آپ کے پاس حلقے میں گنجائش ہے تو وہ حلقے میں آکر بیٹھ گیا۔ دوسرے کو حیا دامن گیر ہوئی تو وہ مجلس کے آخر میں بیٹھ گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دائرہ اور حلقہ بنا کر بیٹھتے تھے نیز تعلیم وغیرہ کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا بھی ثابت ہوا۔ وھوالمقصود۔ 4۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز وتر ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے لہٰذا جو شخص پانچ رکعات پڑھنا چاہے تو پانچ رکعات وتر پڑھے جو تین پڑھنا چاہے تو وہ تین پڑھے اور جو ایک رکعت پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث:1422) حضرت ابن عباس ؓ سے کہا گیا کہ امیر المومنین حضرت معاویہ ؓ نے ایک ہی وتر پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ صحابی ہیں، ایک روایت میں ہے وہ فقیہ ہیں، یعنی انھوں نے درست کیا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3764۔ 3765) نماز وتر کے متعلق تفصیلی بحث کتاب الوتر حدیث 990میں آئے گی۔ وہاں ہم ان کی تعداد اور پڑھنے کے متعلق طریق کار کو بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔