تشریح:
1۔ اس مفصل حدیث کے مطابق مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتا چلتا ہے۔ ©۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس واقعے کو ایک بہتان ہی خیال کرتے تھے وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ ہی کو نہیں بلکہ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔ ©۔ اپنے یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعے کی حتمی تردید اس لیے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لیے تردید مخالفین کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ©۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والدین بھی ذاتی طور پرانھیں پاکبازسمجھتے تھے جیسا کہ ان کی والدہ ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لیے نہ کر سکتے تھے یا پاکباز کا بیان اس لیے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکبازی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کر سکتا تھا۔ ©۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ زینب بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا۔ یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔ سب نے پر زور الفاظ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکبازی کا بیان دیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوکن اور ان کے مقابلے کی چوٹ تھیں انھوں نے بھی آپ کے متعلق ذکر خیر ہی کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کے فرد تھے جن سے آپ پوچھا انھوں نے اس الزام کی تردید یا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا لیکن ان کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ذات یا ان کی پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔
2۔ اس واقعے کا براہ راست صدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پہنچا تھا اور آپ کے ایک ادنی اشارے سے بہتان باندھنے والوں کا صفایا ہو سکتا تھا مگر جب قومی اور قبائلی عصبیت کی بنا پر جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ انتہائی تکلیف دہ صدمہ خود اپنی ذات پر برداشت کر لیا مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔
3۔ آپ اس سلسلے میں پورا مہینہ بے چین و بے تاب رہے اس لیے کہ یقینی علم یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق نہ پوچھتے اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت تھی کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا اسے ثابت کرنے کے لیے کوشش نہ کریں۔
4۔ اس واقعے کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی شہادتیں جو بد کاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسر بھی نہ آسکتی تھیں کیونکہ سب قرآئن اس کے خلاف تھے واقعہ یہ تھا کہ پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی۔ بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں تھی اور پیچھے سے آنے والا آدمی بھی پکا مسلمان ہی تھا جو انھیں واقعی اپنی ماں ہی سمجھتا تھا وہ دونوں اس وقت یا دوران سفر میں ہم کلام نہیں ہوئےاور یہ سفر صبح سے دوپہر تک دن دیہاڑے ہوا۔ عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموشی سے آگے چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے لشکر سے جا ملتا ہے۔ ایسے حالات میں بدگمانی کے محرک دوہی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ بدگمانی کرنے والا خود بد باطن اور خبیث الفطرت انسان ہو جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا یا کرتا ہو اور اسی طرح دوسروں کو اپنی ہی طرح سمجھتا ہواوردوسرا یہ کہ وہ ایسے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس طرح کی بکواس کرنے لگے۔ اس وقت کے منافقین میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔ واللہ المستعان،