تشریح:
1۔ اس کی تفصیل ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو انصار کی عورت نے اس واقعے کی اطلاع دی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی وہاں موجود تھیں۔ انھوں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ اس نے بتایا کہ ہاں سنی ہیں انھوں نے پوچھا کیا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پتا چل گیا ہے؟ اس نے کہا: ہاں یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غش کھا کر گر پڑیں اور جب انھیں ہوش آیا تو سردی کا بخار چڑھا ہوا تھا۔ حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے ان پر کپڑے ڈال کر ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا انھیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! انھیں سردی کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید اس نے اس طوفان بد تمیزی کو سن لیا ہے؟ حضرت ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا: ہاں سن لیا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4143)
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے طبرانی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے ارادہ کیا کہ کسی کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کو ختم کرلوں۔ (المعجم الأوسط للطبراني:184/1 و فتح الباري:592/8) عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ آیت اور حدیث دونوں واقعہ افک سے متعلق ہیں۔