قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ{لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: يُقَالُ: إِنَاهُ: إِدْرَاكُهُ، أَنَى يَأْنِي أَنَاةً فَهُوَ آنٍ "، {لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا} [الأحزاب: 63]: " إِذَا وَصَفْتَ صِفَةَ المُؤَنَّثِ قُلْتَ: قَرِيبَةً وَإِذَا جَعَلْتَهُ ظَرْفًا وَبَدَلًا، وَلَمْ تُرِدِ الصِّفَةَ، نَزَعْتَ الهَاءَ مِنَ المُؤَنَّثِ، وَكَذَلِكَ لَفْظُهَا فِي الوَاحِدِ وَالِاثْنَيْنِ، وَالجَمِيعِ، لِلذَّكَرِ وَالأُنْثَى "

4793. حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بُنِيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ بِخُبْزٍ وَلَحْمٍ فَأُرْسِلْتُ عَلَى الطَّعَامِ دَاعِيًا فَيَجِيءُ قَوْمٌ فَيَأْكُلُونَ وَيَخْرُجُونَ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ فَيَأْكُلُونَ وَيَخْرُجُونَ فَدَعَوْتُ حَتَّى مَا أَجِدُ أَحَدًا أَدْعُو فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَا أَجِدُ أَحَدًا أَدْعُوهُ قَالَ ارْفَعُوا طَعَامَكُمْ وَبَقِيَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ يَتَحَدَّثُونَ فِي الْبَيْتِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَقَالَتْ وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فَتَقَرَّى حُجَرَ نِسَائِهِ كُلِّهِنَّ يَقُولُ لَهُنَّ كَمَا يَقُولُ لِعَائِشَةَ وَيَقُلْنَ لَهُ كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا ثَلَاثَةٌ مِنْ رَهْطٍ فِي الْبَيْتِ يَتَحَدَّثُونَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَدِيدَ الْحَيَاءِ فَخَرَجَ مُنْطَلِقًا نَحْوَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ فَمَا أَدْرِي آخْبَرْتُهُ أَوْ أُخْبِرَ أَنَّ الْقَوْمَ خَرَجُوا فَرَجَعَ حَتَّى إِذَا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي أُسْكُفَّةِ الْبَابِ دَاخِلَةً وَأُخْرَى خَارِجَةً أَرْخَى السِّتْرَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ وَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ «إناه» کا معنی کھانا تیار ہونا پکنا یہ «أنى يأني أناة» سے نکلا ہے۔ «لعل الساعة تكون قريبا» قیاس تو یہ تھا کہ «قريبة» کہتے مگر «قريب» کا لفظ جب مؤنث کی صفت ہو تو اسے «قريبة» کہتے ہیں اور جب وہ ظرف یا اسم ہوتا ہے اور صفت مراد نہیں ہوتی تو ہائے تانیث نکال ڈالتے ہیں «قريب» کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں واحد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث سب برابر ہے۔تشریح:یہ ابو عبیدہ کا قول ہے جسے حضرت امام بخاری نے اختیار کیا ہے بعضوں نے کہا ہے قریباً ایک محذوف موصوف یک صفت ہے یعنی شیئا قرینا یعضوں نے کہا کہ عبارت کی تقدیر یوں ہے لعل قیام الساعۃ تکون قرییا تو تکون کی تانیث میں مضاف الیہ کی مؤنث ہونے کی اور قریبا کی تذکیر میں مضاف کے مذکر ہونے کی رعایت کی گئی ہے واللہ اعلم۔

4793.

حضرت انس ؓ سے ایک دوسری روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت زینب بنت حجش‬ ؓ س‬ے نکاح کے بعد گوشت اور روٹی پر مشتمل کھانا تیار کیا تو مجھے لوگوں کو بلانے کے لیے بھیجا گیا۔ لوگ آتے، کھانا کھا کر واپس چلے جاتے، پھر دوسرے لوگ آتے وہ بھی کھا کر واپس چلے جاتے۔ میں نے سب کو بلایا حتی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہ گیا جسے میں نےنہ بلایا ہو۔ میں نے عرض کی: اللہ کے نبی! اب کوئی شخص بلانے کے لیے باقی نہیں رہا تو آپ نے فرمایا: ’’اب دستر خوان اٹھا لو۔‘‘  تین شخص گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ نبی ﷺ گھر سے اٹھ کر سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے حجرہ کی طرف گئے اور فرمایا: ’’گھر والو! السلام علیکم و رحمة اللہ۔‘‘ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے جواب میں کہا: وعلیک السلام و رحمة اللہ! آپ نے اپنے اہل کو کیسے پایا؟ اللہ تعالٰی آپ کو برکت عطا فرمائے۔ پھر آپ نے تمام ازواج مطہرات کے حجروں کا دورہ فرمایا اور جس طرح حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے فرمایا تھا اسی طرح سب سے فرمایا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے دیا تھا۔ اس کے بعد نبی ﷺ واپس تشریف لائے تو وہ تین حضرات ابھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نبی ﷺ کے مزاج میں بہت شرم و حیا تھی، اس لیے پھر سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے حجرے کی طرف چلے گئے۔ مجھے یاد نہیں کہ خود میں نے آپ ﷺ کو اطلاع دی یا کسی اور نے آپ کو بتایا کہ اب وہ تینوں حضرات چلے گئے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ واپس آئے اور دروازے کی چوکھٹ میں آپ کا ایک پاؤں اندر اور ایک باہر تھا کہ آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ گرا لیا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے پردے کی آیت نازل فرمائی۔