تشریح:
1۔ کسی بچے کو ماں کے علاوہ اگر کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے تو وہ شرعی طور پر دودھ کی یعنی رضاعی ماں بن جاتی ہے اس کے احکام حقیقی ماں جیسے ہو جاتے ہیں۔ اس کا خاوند باپ کے درجے میں اور اس بیٹے بھائیوں کے درجے میں آ جاتے ہیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رضاعی باپ رضاعی چچے اور رضاعی ماموں کے سامنے آنا جائز ہے کیونکہ ان کا حکم حقیقی باپ حقیقی چچے ماموں کا ہے۔
2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے محارم سے بھی پردہ نہیں ہے اگرچہ آیت کریمہ میں ان کا ذکر نہیں مثلاً: دادا، نانا، چچا اور ماموں وغیرہ۔
3۔ اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طور پر ہے کہ آیت میں خونی محارم کا ذکر ہے اور حدیث میں رضاعی محارم کا بیان ہے یعنی جس طرح خونی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اسی طرح رضاعی محارم بھی گھرآ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔