تشریح:
1۔ ایک دوسری حدیث میں اس واقعے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’بنی اسرائیل ننگے نہاتے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا کرتے تھے جبکہ موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرتے تھے۔ وہ نہایت ہی باحیا تھے۔ انھوں نے اپنا جسم کبھی لوگوں کے سامنےننگا نہیں کیا تھا۔ بنی اسرائیل کہنے لگے: شاید موسیٰ علیہ السلام کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا کوئی اورعیب ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہائی میں غسل کرنے لگے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے دوڑے حتی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے۔ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھا تو ان کے تمام شکوک وشبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ علیہ السلام نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے اس الزام کو ختم کردیا جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر لگایا جاتا تھا۔‘‘(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3404)
2۔ بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح تکلیف دینا اس لحاظ سے مزید سنگین جرم بن جاتا ہے کہ آپ ہی کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور وہ مصر میں بڑی بدترین زندگی گزاررہے تھے، بہرحال اس آیت کا روئے سخن منافقین کی طرف ہے جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ مخلص اہل ایمان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب اور محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ یا تکلیف پہنچائیں۔