تشریح:
1۔ اس حدیث کا سبب ورود ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس کی وجہ سے ماحول روشن ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پوچھا: ’’دور جاہلیت میں جب ستارہ ٹوٹتا تھا تو تم کیا خیال کرتے تھے؟‘‘ انھوں نے عرض کی: ویسے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارے خیال کے مطابق جس رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا یا مر جاتا تو یہ کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسا نہیں ہے کہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے ستارہ ٹوٹتا ہو، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمانوں میں کرتا ہے۔۔۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث:5819(2229))
2۔ بہرحال آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت شفاعت کے سلسلے میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اسکے ہاں سفارش اسے فائدہ دے سکتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ خود اجازت دے۔‘‘ (سبا 34:23) سفارش اللہ کی بارگاہ میں اتنی عالی مرتبہ اور بڑی چیز ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اوربڑی شخصیت ہی کو۔ وہاں تو یہ عالم ہے کہ فرشتے اللہ کا حکم سن کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔