قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَولِهِ {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا [ص مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: الحَقَّ وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4800. حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرٌو قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوْ الْكَاهِنِ فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ فَيُقَالُ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنْ السَّمَاءِ

مترجم:

4800.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالٰی آسمان میں کسی معاملے کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے اللہ تعالٰی کے فرمان کے سامنے جھکاؤ کے لیے عاجزی کے طور پر اپنے پروں کو اس طرح مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ جو کچھ اللہ نے فرمایا ہوتا ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل برحق ہے اور وہی سب سے بلند و برتر ہے، تو سنی ہوئی بات چوری کرنے والے شیاطین بھی اسے سن لیتے ہیں۔ اور چوری کرنے والے شیاطین اس طرح ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوتے ہیں ۔۔ سفیان نے اپنی ہتھیلی سے اس کی کیفیت بیان فرمائی: ہتھیلی کو ایک طرف کیا اور انگلیوں کے درمیان فرق کیا ۔۔ بہرحال وہ اس کلمہ حق کو سن کر اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے اور وہ دوسرا اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے یہاں تک کہ وہ کسی جادوگر یا نجومی کے کان میں ڈالتا ہے، پھر کبھی تو اس کے پہنچانے سے پہلے ہی شہاب ثاقب اسے پا لیتا ہے اور کبھی اس کے پانے سے پہلے وہ کلمہ پہنچا لیتا ہے، پھر وہ ساحر یا نجومی اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا لیتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے: کیا فلاں دن اس نے ہمیں اس اس طرح نہیں کہا تھا؟ تو وہ کلمہ جو آسمان سے سنا گیا تھا اس کی وجہ سے اس کے جھوٹ کو بھی سچا سمجھا جاتا ہے۔‘‘