تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے آ پ کی رشتے داری صرف بنو عبدالمطلب ہی سے نہیں بلکہ قریش کے سب قبیلوں سے تھی اور بنو عبدالمطلب میں سے بھی کچھ لوگ آپ کے حق میں تھے اور کچھ سخت دشمن بھی تھے۔ ابولہب لعین کی دشمنی تو سب جانتے ہیں۔ یہی حال قریش کے باقی قبیلوں کا تھا۔ ایسے حالات میں آپ نے فرمایا: ’’تم کم از کم میری قرابتداری کا تو خیال رکھو۔‘‘
2۔ بعض حضرات نے قربیٰ سے مراد قرب یا تقرب لیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ میں تم سے اس کام پر اس بات کے سوا اور کوئی جزا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے، یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ اور اللہ سے محبت کرنے لگو۔ بس یہی میرا اجر ہے، لیکن ہم نے پہلے معنی جو بیان کیے ہیں وہ اس تفسیر کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں۔3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ آیت کریمہ میں اقارب سے مراد تمام قریش ہیں، صرف بنوہاشم مراد لینا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم۔