تشریح:
1۔ حضرت ابن عمر ؓ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر رسول اللہ ﷺ نے نمازیں پڑھیں، وہاں نماز کے لیے خاص طورپراہتمام کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا مستحب ہے۔ویسے بھی ابن عمر ؓ کی اتباع سنت میں انتہائی شدت مشہور ہے، لیکن دوسری طرف ان کے والد گرامی سیدناحضرت عمر ؓ کا طرز عمل یہ ہے کہ اپنے کسی سفر میں انھوں نے دیکھا کہ لوگ ایک خاص جگہ پر نماز پڑھنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں نماز پڑھی تھی۔اس پر آپ نے فرمایا:اگران مقامات پر اتفاقاً نماز کا وقت ہوجائے تو پڑھ لے بصورت دیگر آگے چل کر جہاں وقت ہووہاں پڑھے۔ اہل کتاب اسی لیے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے آثار کو تلاش کرکے وہاں عبادت گاہیں بنائیں اور گرجے تعمیر کیے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر ؒ نے باپ اور بیٹے کے طرز عمل میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا فرمان ان عام لوگوں کی زیارت سے متعلق ہے جو ان مقامات کی نماز کے بغیر زیارت کو پسندیدہ خیال کرتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو ناپسند فرمایا۔انھیں اندیشہ تھا کہ مبادا ایسے لوگ ان مقامات پر نماز پڑھنا واجب خیال کرلیں۔ حضرت ابن عمر ؓ جیسے افراد سے اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عتبان ؓ کے گھر میں اس لیے نماز پڑھی تھی تاکہ عتبان وہاں نماز پڑھا کریں۔ یہ اس بات کی دلیل ہےکہ صالحین کے آثار سے تبرک لیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباري:736/1) لیکن حافظ ا بن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں ان کے موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک وبدعت کا وہ چوردروازہ کھلتاہے جسے حضرت عمر ؓ جیسے دوراندیش نے بند کرنا چاہا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے لوگوں کے اسی طرز عمل کو تو ناپسند کیا تھا کہ وہ اہتمام سے آثار صالحین تلاش کرکے وہاں نماز پڑھتے تھے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:’’جو چیزیں اتفاقی طور پر رسول اللہ ﷺ نے کی ہیں اگر اتفاقی طور پر انھیں عمل میں لایاجائے تو مضائقہ نہیں، یعنی سفر کررہے ہیں اور اتفاق سے ایسی جگہ نماز کا وقت آجائے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تو وہاں نماز پڑھ لی جائے لیکن اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا درست نہیں، حدیث میں ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تین مساجد(بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس) کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف سفر (برائے تقرب الٰہی) نہ کیا جائے۔‘‘(صحیح البخاري، فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة حدیث: 1189) 2۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کہتے ہیں:زمانہ جاہلیت میں لوگ متبرک مقامات کی ’’زیارت‘‘ کے لیے جاتے تھے، اس میں چونکہ عبادت غیر اللہ کا دروازہ کھلتا ہے، اس لیے بگاڑ کی اس جڑ کو بند کردیا گیا اور میرے نزدیک کسی ولی کی قبر اور اس کی عبادت کی جگہ بھی اس حدیث میں داخل ہیں، یعنی ان کی طرف تقربی سفرجائز نہیں۔ (حجة اللہ البالغة:192/1) اس سے پہلے فتح الباری کے حوالے سے حضر ت عمر ؓ کا انتباہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ (المصنف ابن أبي شیبة:367/3) مزید برآں حضر ت عمر ؓ کو جب اطلاع ملی کہ لوگ اس درخت کے نیچے تبرکاً ٹھہرتے ہیں جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت لی تھی توآپ نے اس درخت کو کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ (فتح الباري:558/7) حضرت ابن عمر ؓ نے اس سلسلے میں دیگر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں شدید الاتباع ہونے کی حیثیت سے یہ راستہ اپنایا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے کبھی غارثور، غارحراء یا بیعت العقبة کے مقامات کی زیارت کے لیے سفر نہیں کیا، حالانکہ ان مقامات کے ساتھ اسلامی تاریخ کے اہم واقعات وابستہ ہیں، بلکہ ابن عمر ؓ کے متعلق یہ روایت بھی ملتی ہے کہ قزعہ تابعی ؒ نے آپ سے کوہ طور پرجانے کی بابت سوال کیا تو آپ نے اسے وہاں جانے سے منع فرمایا اور کہا کہ صرف تین مساجد کی طرف بغرض ثواب سفر کرنادرست ہے۔ (تحذیر الساجد للألباني) حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے جس درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی، آئندہ سال جب وہاں گئے تو وہ درخت ہم سے پوشیدہ کردیا گیا حتی کہ ہم میں سے دوآدمی بھی اس کی تعین کے متعلق متفق نہ ہوسکے۔ اس کا مخفی ہونا بھی ہمارے لیے اللہ کی رحمت تھی۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2958) حضرت مسیب بن حزن ؓ بھی اس کے گمنام ہونے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ سے متفق ہیں۔ ( صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4164) حضرت طارق بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں ایک سال حج کے لیے گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جوکسی جگہ اہتمام سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں نےدریافت کیا کہ یہ کون سی مسجد ہے جس میں یہ لوگ اہتمام سے نماز پڑھ رہے ہیں؟ بتایاگیا کہ یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت رضوان لی تھی۔ میں اسی وقت حضرت سعید بن مسیب ؒ کے پاس آیا انھیں بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ میرے باپ حضرت مسیب ؒ کے بیان کے مطابق جب ہم آئندہ سال مقام حدیبیہ میں آئے تواس درخت کو بھول گئے تھے۔ کوشش بسیار کے باوجود اس کی تعین سے قاصر رہے۔ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تو اسے معلوم نہ کرسکے۔ اگران حضرات نے اس کا کھوج لگالیا ہے تو یہ جانیں اور ان کا کام ہمیں ان سے کیا واسطہ ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4163) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس میں حکمت یہ تھی کہ آئندہ کے لیے اس درخت کی خیروبرکت لوگوں کو کہیں آزمائش میں مبتلا نہ کر دے۔ اگروہ درخت باقی رہتا تو جاہل لوگ اس حد تک اس کی تعظیم کرتے کہ اس کے متعلق نفع نقصان پہنچانے کا عقیدہ بنالیتے۔ جیساکہ آج کل متعدد مقامات کے متعلق اس قسم کے عقائد ونظریات کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ (فتح الباري:143/6) اس کے علاوہ غیر نبی کو نبی پر کیونکرقیاس کیا جاسکتا ہے؟زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آثار کےمتعلق خیروبرکت کا عقیدہ رکھاجاسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ دیگرحضرات کے آثار کےمتعلق کیا ثبوت ہے؟3۔ صحیح بات یہی ہے کہ حضرت عمر ؓ بڑے حساس قسم کے انسان تھے۔ انھوں نے آثار انبیاء علیہم السلام کے تتبع سے اس بنا پر منع فرمایا تاکہ آئندہ کسی وقت انھیں شرک کا ذریعہ نہ بنالیا جائے وہ اپنے بیٹے سے اس معاملے میں زیادہ علم اور تجربہ رکھتےتھے۔ قصہ عتبان بھی اس کے برعکس موقف کے لیے دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کواپنے گھر میں دعوت ہی اس لیے دی تھی کہ آپ گھر کے کسی کو نے میں نماز پڑھیں تاکہ وہ اسے مستقل جائے نماز قراردے لیں۔ لیکن راستے میں جو اتفاقاً ایسے آثار اور واقعات ملتے ہیں ان کی طرف قصداً جانا اس واقعے سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ ہمارے نزدیک ایساکرنا غیرمشروع ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق انتباہ فرمایا ہے کہ ایساکرنا اہل کتاب کا طریقہ اور شرک کا ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم۔ 4۔ حضرت ابن عمر ؓ ان مقامات پر بطور تبرک واتباع نماز پڑھتے تھے۔ ویسے تورسول اللہ ﷺ کا ہر قول، ہرفعل اور ہر نقش قدم ہمارے لیے باعث خیروبرکت ہے، مگر تبرکات انبیاء علیہم السلام کے نام سے ہمارے معاشرے میں جوافراط وتفریط پائی جاتی ہے وہ بھی حددرجہ قابل مذمت ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ آپ کے پیشاب اور فضلات تک کو بھی بلادلیل پاک کہتے ہیں۔ 5۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے دوشاگرد ہیں:ایک ان کے صاحبزادے حضرت سالم اور دوسرے ان کے آزادکردہ غلام حضرت نافع۔ جس طرح سالم ان مقامات سےمتعلقہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایات بیان کرتے ہیں، اسی طرح حضرت نافع بھی روایت کرتے ہیں۔ ان دونوں کے شاگرد حضرت موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ ان مقامات کے متعلق حضرت نافع نے بیان کیاتھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وہاں نماز پڑھتے تھے۔ پھر میں نے اس سلسلے میں ان کے صاحبزادے حضرت سالم سے رابطہ کیا تو انھوں نےحضرت نافع کے بیان کے متعلق تفصیلات بیان کیں، مگرشرف الروحاء کی مسجد کے متعلق ان کے بیانات مختلف تھے۔ حضرت نافع نے تو اسے ذکر کیا، لیکن حضرت سالم اس کاتذکرہ نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ روحاء ایک جگہ کا نام ہے اور شرف کے معنی بلندی کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ روحاء سے متصل جو اونچی جگہ ہے، وہاں مسجد کی تعین کے متعلق حضرت نافع اور حضرت سالم کےبیان میں اختلاف ہے۔ 6۔ آئندہ جن مقامات کی تعین الفاظ وعبارت سےکی جائے گی ان میں سے بیشتر مقامات ومساجد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ صحیح طور پر ان کاتعین تو دیکھنے والا ہی کرسکتا ہے۔ الفاظ کےذریعے سے ان کی نشاندہی بہت مشکل ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے الفاظ کے ذریعے سے بھی ان مقامات کی نشاندہی کی تھی اور عملی طور پر بھی اپنے متعلقین کو مشاہدہ کرادیاتھا۔ مکے سے مدینے تک اس سفر کی سات منازل ہیں۔ اب ہر منزل کی الگ وضاحت پیش خدمت ہے۔