Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) in a mosque situated in a market)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھے
483.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں: اے اللہ اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔"
تشریح:
1۔مساجد کی دو اقسام ہیں:ایک تو اصطلاحی مساجد ہیں جن میں نماز پڑھنے کے متعلق اذن عام ہوتا ہے اور وہ تمام مسلمانوں کے لیے وقف کی حیثیت رکھتی ہیں۔دوسری جگہ وہ مساجد ہوتی ہیں جو صرف لغوی طور پر مساجد کہلاتی ہیں جیسا کہ گھر میں مسجد بنالی جاتی ہے یا بازار میں کسی دکان کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ متعین کرلی جاتی ہے۔جب بازار بند ہوگیا تو اس کے ساتھ مسجد بھی بند ہوجاتی ہے۔عہد نبوی میں بھی بازاروں کی مساجد اسی طرح ہوتی تھیں کیونکہ وہ بازار آبادی سے باہر ہوتے تھے۔عارضی طور پر مسجد بنالی جاتی ،جب بازار ختم ہوجاتا تو مسجد بھی ختم ہوجاتی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان میں تنہا اور باجماعت نماز کے ثواب کا فرق بیان کرناچاہتے ہیں یعنی باجماعت نماز میں بانسبت تنہایا بازار میں نماز پڑھنے کے پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔بازار کی مساجد میں نماز تو ہوجاتی ہے لیکن انسان باجماعت نماز کے اضافی ثواب سے محروم رہتاہے،چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:مسجد سوق سے مراد ہو جگہ ہے جسے بازار والے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کریں۔اس کے علاوہ محلے کی مسجد اور ہوتی ہے اس کےلیے تو ہمیشہ مسجد کا حکم ہے،یعنی بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے کا جواز ثابت کرتا ہے۔کہ وہاں نماز ہوجاتی ہے لیکن اس دور میں آبادی کےاندر بازار اور مارکیٹیں ہیں اور بعض مقامات میں کچھ دکاندار مل کر مسجد کے لیے جگہ خرید کر وہاں مسجد بنالیتے ہیں۔ یعنی وہ اصطلاحی مسجد بناتے ہیں۔اس میں باقاعدہ اذان اور جماعت بلکہ بعض میں جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔اگر کوئی بازار میں اس طرح کی مساجد میں نماز ادا کرے گا تو وہ پورے اضافی ثواب کا حقدار ہوگا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد سوق کا عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ بازار شوروشغب ،خریدوفروخت اور جھوٹی قسموں کی جگہ ہے اور اسے شرالبقاع کہا گیا ہے،اس بنا پر وہم ہوسکتا ہے کہ شاید ایسے مقام پر نماز جائز نہ ہو،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔2۔ابن بطال کہتے ہیں:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بازار کے متعلق آنے والی حدیث شرالبقاع کی وجہ سے یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا وہاں نماز پڑھنا ناجائز ہو،اس لیے انھوں نے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں بازار کے اند رنماز پڑھنے کا ثبوت ہے۔اگر کوئی وہاں نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے۔مزید برآں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب بازار میں انفرادی نماز کا جواز معلوم ہواتو بازار میں مسجد شرعی تعمیر کرنے کا جواز بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔( شرح ابن بطال 124/1۔) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شارح بخاری ابن بطال نے بھی مسجد سوق سے شرعی مسجد مراد نہیں لی بلکہ درجہ اولیٰ(بدرجہ اولی) میں لاکر بازار کی شرعی اور لغوی دونوں قسم کی مساجد میں نماز کا جوازثابت کیا ہے۔واللہ اعلم۔ بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرعذر ہوتوگھر یا بازار میں اکیلا نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی ،البتہ اضافی ثواب نہیں ملے گا اور اگر مسجد شرعی محلے یا بازار میں ہو،وہاں نماز پڑھنے سے اضافی ثواب بھی ملے گا،لہذا بازار میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔اوربازار میں اگر مسجد شرعی ہوتو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی محلے کی مسجد کے ثواب کے برابر ہوگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
473
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
477
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
477
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
477
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
حدیث کے مطابق بازاروں کو شرالبقاع یعنی بدترین مقامات قراردیا گیا ہے جب کہ مساجد کو خیر البقاع یعنی بہترین مقامات کہا گیا ہے۔اب اگر بازار میں مسجد بنا لی جائے تو کیا وہ حصہ بہترین مقامات میں شمار ہو سکےگا؟ اور کیا ایسی مسجد میں نماز وہ جماعت کا ثواب دیگر مساجد کی طرح ہوگا؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں اسی شبہ کا ازالہ کیا ہے بازار میں بلا ضرورت جانا امر ممنوع ہے ابن عون نے گھر کی ایسی مسجد میں نماز پڑھی جس کا دروازہ بند ہو جا تا تھا گویا وہاں صرف مخصوص لوگ آ سکتے تھے دیگر حضرات کا آنا منع تھا لیکن اس مسجد میں بھی نماز جائز تھی معلوم ہوا کہ جانے پر پابندی یا جانے ممانعت جواز نماز کے لیے مانع نہیں نیز بازار میں اگر مسجد بن جائے تو وہ خیر البقاع (بہترین مقام )بن جاتا ہے۔( فتح الباری:1/730۔)
اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں: اے اللہ اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔"
حدیث حاشیہ:
1۔مساجد کی دو اقسام ہیں:ایک تو اصطلاحی مساجد ہیں جن میں نماز پڑھنے کے متعلق اذن عام ہوتا ہے اور وہ تمام مسلمانوں کے لیے وقف کی حیثیت رکھتی ہیں۔دوسری جگہ وہ مساجد ہوتی ہیں جو صرف لغوی طور پر مساجد کہلاتی ہیں جیسا کہ گھر میں مسجد بنالی جاتی ہے یا بازار میں کسی دکان کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ متعین کرلی جاتی ہے۔جب بازار بند ہوگیا تو اس کے ساتھ مسجد بھی بند ہوجاتی ہے۔عہد نبوی میں بھی بازاروں کی مساجد اسی طرح ہوتی تھیں کیونکہ وہ بازار آبادی سے باہر ہوتے تھے۔عارضی طور پر مسجد بنالی جاتی ،جب بازار ختم ہوجاتا تو مسجد بھی ختم ہوجاتی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان میں تنہا اور باجماعت نماز کے ثواب کا فرق بیان کرناچاہتے ہیں یعنی باجماعت نماز میں بانسبت تنہایا بازار میں نماز پڑھنے کے پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔بازار کی مساجد میں نماز تو ہوجاتی ہے لیکن انسان باجماعت نماز کے اضافی ثواب سے محروم رہتاہے،چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:مسجد سوق سے مراد ہو جگہ ہے جسے بازار والے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کریں۔اس کے علاوہ محلے کی مسجد اور ہوتی ہے اس کےلیے تو ہمیشہ مسجد کا حکم ہے،یعنی بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے کا جواز ثابت کرتا ہے۔کہ وہاں نماز ہوجاتی ہے لیکن اس دور میں آبادی کےاندر بازار اور مارکیٹیں ہیں اور بعض مقامات میں کچھ دکاندار مل کر مسجد کے لیے جگہ خرید کر وہاں مسجد بنالیتے ہیں۔ یعنی وہ اصطلاحی مسجد بناتے ہیں۔اس میں باقاعدہ اذان اور جماعت بلکہ بعض میں جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔اگر کوئی بازار میں اس طرح کی مساجد میں نماز ادا کرے گا تو وہ پورے اضافی ثواب کا حقدار ہوگا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد سوق کا عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ بازار شوروشغب ،خریدوفروخت اور جھوٹی قسموں کی جگہ ہے اور اسے شرالبقاع کہا گیا ہے،اس بنا پر وہم ہوسکتا ہے کہ شاید ایسے مقام پر نماز جائز نہ ہو،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔2۔ابن بطال کہتے ہیں:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بازار کے متعلق آنے والی حدیث شرالبقاع کی وجہ سے یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا وہاں نماز پڑھنا ناجائز ہو،اس لیے انھوں نے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں بازار کے اند رنماز پڑھنے کا ثبوت ہے۔اگر کوئی وہاں نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے۔مزید برآں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب بازار میں انفرادی نماز کا جواز معلوم ہواتو بازار میں مسجد شرعی تعمیر کرنے کا جواز بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔( شرح ابن بطال 124/1۔) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شارح بخاری ابن بطال نے بھی مسجد سوق سے شرعی مسجد مراد نہیں لی بلکہ درجہ اولیٰ(بدرجہ اولی) میں لاکر بازار کی شرعی اور لغوی دونوں قسم کی مساجد میں نماز کا جوازثابت کیا ہے۔واللہ اعلم۔ بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرعذر ہوتوگھر یا بازار میں اکیلا نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی ،البتہ اضافی ثواب نہیں ملے گا اور اگر مسجد شرعی محلے یا بازار میں ہو،وہاں نماز پڑھنے سے اضافی ثواب بھی ملے گا،لہذا بازار میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔اوربازار میں اگر مسجد شرعی ہوتو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی محلے کی مسجد کے ثواب کے برابر ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کر دیے جاتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انھوں نے رسول کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار ( دوکان وغیرہ ) میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔ اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ جب تک کہ ریح خارج کر کے ( وہ فرشتوں کو ) تکلیف نہ دے۔
حدیث حاشیہ:
بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔ خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The prayer offered in congregation is twenty five times more superior (in reward) to the prayer offered alone in one's house or in a business center, because if one performs ablution and does it perfectly, and then proceeds to the mosque with the sole intention of praying, then for each step which he takes towards the mosque, Allah upgrades him a degree in reward and (forgives) crosses out one sin till he enters the mosque. When he enters the mosque he is considered in prayer as long as he is waiting for the prayer and the angels keep on asking for Allah's forgiveness for him and they keep on saying: 'O Allah! Be Merciful to him, O Allah! Forgive him, as long as he keeps on sitting at his praying place and does not pass wind. (See Hadith No. 620).