قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا لاَ جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلاَ أَبْنَائِهِنَّ وَلاَ إِخْوَانِهِنَّ وَلاَ أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلاَ أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلاَ نِسَائِهِنَّ وَلاَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِينَ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

4831 .   حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ أَفْلَحُ أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ بَعْدَمَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَقُلْتُ لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ فِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ أَخَاهُ أَبَا الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا مَنَعَكِ أَنْ تَأْذَنِي عَمُّكِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ فَقَالَ ائْذَنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّكِ تَرِبَتْ يَمِينُكِ قَالَ عُرْوَةُ فَلِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ حَرِّمُوا مِنْ الرَّضَاعَةِ مَا تُحَرِّمُونَ مِنْ النَّسَبِ

صحیح بخاری:

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: آیت (( ان تبدوا شیئا او تخفوہ )) کی تفسیریعنی”اے مسلمانو! اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو گے یا اسے (دل میں) پوشیدہ رکھو گے تو اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے، ان (رسول کی بیویوں) پر کوئی گناہ نہیں، سامنے آنے میں اپنے باپوں کے اور اپنے بیٹوں کے اور اپنے بھائیوں کے اور اپنے بھانجوں کے اور اپنی (دینی بہنوں) عورتوں کے اور نہ اپنی باندیوں کے اور اللہ سے ڈرتی رہو، بیشک اللہ ہر چیز پر (اپنے علم کے لحاظ سے) موجود اور دیکھنے والا ہے“

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

4831.   حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابو قعیس کے بھائی حضرت افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا: جب تک میں اس سلسلے میں نبی ﷺ سے اجازت نہ حاصل کر لوں، ان سے نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے بھائی ابو قعیس ؓ نے مجھے کون سا دودھ پلایا ہے۔ مجھے تو ابو قعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول! ابو قعیس ؓ کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہہ دیا کہ جب تک آپ ﷺ سے اجازت نہ لے لوں، ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے چچا کو ملنے سے تمہیں کیوں انکار ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے ابو قعیس نے دودھ نہیں پلایا بلکہ دودھ پلانے والی تو اس کی بیوی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں، انہیں اندر آنے کی اجازت دو۔ وہ تمہارے چچا ہیں۔ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں!‘‘ حضرت عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی ان چیزوں کو حرام سمجھو جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں۔