تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرسوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو خاموش ہی اس کا جواب ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باربار سوال کرنے پر اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
2۔ واضح رہے کہ یہ سفر عمرہ حدیبیہ سے واپس آنے کا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم حدیبیہ سے واپس ہوئے تو ہم پر غم اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے کیونکہ کفار مکہ ہمارے عمرے اورقربانیوں کے درمیان حائل ہوئے تھے، تو ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو دنیا و ما فیھا سے عزیز قراردیا کیونکہ یہ نصرت اسلام، اتمام نعمت، اصحاب شجرہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے امور پر مشتمل ہے جو اہل اسلام کے لیے بشارت کا باعث ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذکر کیا ہے۔