تشریح:
1۔ قرآن کریم میں ہے: ’‘یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔‘‘ (السجدة:13) جب اس وعدے کا ایفا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جنوں اور انسانوں کو جہنم میں ڈال دے گا تو جہنم سے پوچھے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ وہ جواب دے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟ یعنی تیرے دشمنوں کے لیے میرے دامن میں اب بھی گنجائش ہے۔ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی گفتگو اور جہنم کا جواب دینا، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے قطعاً بعید نہیں۔ اس سوال وجواب سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ جہنم بہت بڑی اور وسیع ہوگی کہ تمام جہنمی اس میں ڈال دیے جائیں گے لیکن اس میں مزید گنجائش ہوگی، دوسرے یہ کہ جہنم اس دن اس قدر غیظ وغضب میں بھڑک رہی ہوگی کہ وہ جواب میں کہے گی: جتنے مجھ میں داخل ہونے کے مستحق ہیں سب کو لے آؤ، میں آج کسی کو نہیں چھوڑوں گی۔
2۔ کچھ لوگ اس مقام پر قدیم کی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد اس کا ذلیل کرناہے یا کسی مخلوق کا قدم ہے لیکن ہم اہل سنت اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ قدم اور رِجل کو اس طرح تسلیم کرتے ہیں جیسے سمع، بصر، عین اور وجہ کو مانتے ہیں۔ اس کی مزید تفصیل کتاب التوحید حدیث :7449۔ میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔