تشریح:
1۔ اس سوال وجواب میں دوزخ نے متکبرین کا انداز اختیار کیا جبکہ جنت عاجزی اور انکسار کا اظہار کرے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ان دونوں کو بھرنا ضرورہے۔ اہل جنت جب جنت میں پہنچ جائیں گے تو جنت میں ابھی بہت سی جگہ خالی ہوگی، اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے وہاں بسا دے گا لیکن دوزخ کا بھرنے کے لیے اپنا قدم اس پر رکھ دے گا جس کی وجہ سے وہ بس، بس کہنے لگے گی۔
2۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا کہ جہنم کو بھرنے کے لیے وہاں کسی مخلوق کو پیدا کرکے اس میں جھونک دے لیکن بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھرنے کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7449) اس مقام پر علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت خوبصورت بات کہی ہے فرماتے ہیں: جنت میں فالتو جگہ بھرنے کے لیے تواللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرکے وہاں انھیں بسا دے گا، لیکن جہنم میں بھی فالتو جگہ ہوگی۔ صحیح بخاری میں ایک جگہ پر ہے کہ اسے بھرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا جبکہ صحیح بخاری کی دیگر روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم رکھ دے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے راوی کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے جان بوجھ کر یہ انداز اختیار کیا ہے کہ ایک مقام پر اس کی غلطی کی نشاندہی کی ہے جبکہ دوسرے مقامات پر صحیح بات ذکر کی ہے۔ (منھاج السنة:25/3)
3۔ ہمارے رجحان کے مطابق جہنم کو بھرنے کے لیے کسی مخلوق کو پیدا نہیں کرے گا، بلکہ اپنا قدم رکھ دے گا پھر وہ جہنم بس، بس کہہ اٹھے گی۔ واللہ اعلم۔