تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز میں مصروف تھے کہ شام کے علاقے سے ایک تجارتی قافلہ لے آیا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2058) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان بارہ آدمیوں میں سے تھے جو آپ کا خطبہ سننے میں مصروف رہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3311) ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خطبہ سننے والوں میں باقی رہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1999۔(863))
2۔ ان آیات میں مسلمانوں پر اظہار ناراضی کیا گیا ہے کہ یہ قافلے والےکوئی تمھارے رازق تو نہیں تھے کہ تم خطبہ چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ نکلے۔ رزق کے اسباب مہیا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا آئندہ تمھیں ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
3۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو کھڑے ہو کر خطبہ دینا چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی بھر یہی معمول رہا چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے پھر بیٹھ جا تے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے جو تمھیں یہ بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر خطبہ دیا اس نے جھوٹ بولا۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1996۔(862))