تشریح:
1۔ اس موقع پر عبداللہ بن ابی نے انصار کو خوب اشتعال دلایا، کہنے لگا: یہ مہاجر لوگ مدینے میں آکر ہمارے ہی حریف بن گئے ہیں۔ پھر اس نے انصار سے کہا: یہ مصیبت تمہاری ہی پیدا کی ہوئی ہے تم نے انھیں اپنے ہاں جگہ دی اور اپنے مال میں انھیں شریک کیا۔ اب بھی اس کا یہی علاج ہے کہ ان کا دانہ پانی بند کردو۔ یہ خود ہی یہاں سے چلتے بنیں گے۔
2۔ ہم اس مقام پر جاہلیت کے نعروں کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتےہیں۔ اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ اگر دو آدمی اپنے کسی جھگڑے میں لوگوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں کہ مسلمانو! آؤ ہماری مدد کرو، یا لوگو! ہماری مدد کے لیے آؤ، لیکن اگر ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے، برادری یا علاقے کے نام پر لوگوں کو پکارتا ہے تو یہ جاہلیت کا نعرہ ہے۔ اس قسم کی پکار پر لبیک کہنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ ظالم کون ہے، مظلوم کون ہے؟ وہ حق وانصاف کی بنا پر مظلوم کی مدد کرنے کے بجائے اپنے گروہ کے افراد کی مدد کرے گا، خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ یہ جاہلیت کا فعل ہے جس سے دنیا میں فساد برپا ہوتا ہے۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندی اور گھناؤنی چیز قرار دیا ہے اور فرمایا: تم اسلام کی بنیاد پر ایک ملت بنے تھے، اب یہ انصار اور مہاجرین کے نام پر ایک دوسرے کو آواز کیوں دی جا رہی ہے؟ مسلمانوں کو اس قسم کے نعروں سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے حق و انصاف کا خون ہوتا ہے۔ واللہ المستعان۔