تشریح:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےسورہ منافقون پر آٹھ ابواب قائم کیے ہیں، ہرعنوان کے تحت اسی واقعے کو مختلف انداز سے بیان کیا ہے آپ کا مقصود یہ ہے کہ ان تمام آیات کی شان نزول ایک ہی واقعہ ہے، تاہم اس واقعے کی مناسبت سے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے: پہلی بات یہ ہے کہ ایک شخص کی بُری بات دوسرے شخص تک پہنچانا اگر کسی دینی مصلحت کے لیے ہوتو یہ چغلی نہیں ہے۔ شریعت میں جس چغل خوری کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ فساد کی غرض سے اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کی غرض سے چغلی کھانا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو طرزعمل عبداللہ بن ابی ملعون نے اختیار کیا تھا اگر کوئی شخص مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو واقعی قابل گرفت ہے لیکن اس قسم کے فیصلے سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ اس قسم کا قتل کسی بہت بڑے فتنے کا باعث تو نہیں بن جائے گا۔ آنکھیں بند کرکے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض دفعہ اس مقصد کے خلاف بالکل الٹ نتیجہ پیدا کردیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق یا مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابل لحاظ سیاسی طاقت موجود ہوتو اسے سزادے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کو ختم کردیا جائے جس کے بل بوتے پر وہ شرارت کررہا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے متعلق اختیار کیا تھا۔ اس کا نتیجہ بر آمد ہوا کہ دو تین سال کے اندر مدینہ طیبہ میں منافقوں کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا بلکہ بچہ بچہ ان سے نفرت کرنے لگا۔ واللہ المستعان۔