تشریح:
1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم مزاج اور حوصلہ مند تھے۔ آپ معمولی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے لیکن ازواج مطہرات سےناراضی اس بات کی دلیل تھی کہ یقیناً یہ بات قابل برداشت نہیں ہے۔ ان دونوں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کا رویہ واقعی ایسا ہی قابل اعتراض تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو جانے اور بالا خانہ میں خلوت نشین ہونے پر حق بجانب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات پر حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو ان کے رویے پر شدت کےساتھ تنبیہ فرمائے۔
2۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس معاملے میں صرف حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا قصور نہیں تھا بلکہ دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی کچھ نہ کچھ اس میں حصے دارتھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ آیات میں تمام ازواج مطہرات کو تنبیہ کی گئی ہے۔ اور یہ بات بھی تاریخ پر ثبت ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں: ایک میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جبکہ دوسری پارٹی میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور باقی ازواج رضوان اللہ عنھن اجمعین شامل تھیں۔ حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ ایک دفعہ تمام ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیرت کا رعب جمانے کے لیے باہمی اتفاق کرلیا تھا جو عورتوں کی طبیعت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4916)