قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ:{تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ}، {قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4913. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ أَنَّهُ قَالَ مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعْنَا وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ قَالَ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ بِهِ قَالَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ إِذْ قَالَتْ امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَقُلْتُ لَهَا مَا لَكَ وَلِمَا هَا هُنَا وَفِيمَ تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ فَقَالَ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَأَخَذَتْنِي وَاللَّهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدْ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ فَقَالَ افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ جَاءَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ فَأَخَذْتُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ لَهُ قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْكِيكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمْ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ

مترجم:

4913.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک آیت کے متعلق حضرت عمر ؓ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک ٹھہرا رہا لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر وہ ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ واپسی کے وقت جب ہم راستے میں تھے تو آپ رفع حاجت کے لیے ایک پیلو کے درخت کے پاس گئے۔ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ جب آپ فارغ ہو کر آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ اس وقت میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! امہات المومنین میں سے وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدہ حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے یہ سوال کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا، لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، جس مسئلے کی بابت تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس کے متعلق معلومات ہیں تو وہ پوچھ لیا کرو۔ اگر میرے پاس اس کے متعلق کچھ علم ہو گا تو میں تمہیں ضرور بتا دیا کروں گا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! دور جاہلیت کے وقت ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہ تھی حتی کہ اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق وہ احکام نازل فرمائے جو نازل کرنے تھے۔ اور ان کے حقوق مقرر کیے جو کرنے تھے۔ ایک دن یوں ہوا کہ میں کچھ سوچ بچار میں تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا: بہتر ہے تم یہ معاملہ فلاں فلاں طرح حل کرو۔ میں نے اس سے کہا: تمہارا اس کام میں کیا داخل؟ یہ معاملہ مجھ سے متعلق ہے، تمہیں دخل اندازی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ میری بیوی نے کہا: اے خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر مجھے حیرت ہے کہ تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کرتے جبکہ تمہاری بیوی تو رسول اللہ ﷺ کو بھی جواب دے دیتی ہیں، یہاں تک کہ وہ سارا سارا دن اس سے ناراض رہتے ہیں۔ یہ سن کر عمر کھڑا ہو گیا اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ‬ ؓ ک‬ے گھر پہنچا اور کہا: بیٹی! تم رسول اللہ ﷺ سے تکرار کرتی ہو یہاں تک کہ وہ سارا سارا دن تم سے ناراض رہتے ہیں؟ حفصہ‬ ؓ ن‬ے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! ہم رسول اللہ ﷺ سے بعض اوقات تکرار کرتی ہیں۔ میں نے کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضی سے خبردار کرتا ہوں۔ اے بیٹی! تم اس عورت کی وجہ سے دھوکے میں نہ آ جانا جسے اپنے حسن پر بڑا ناز ہے اور رسول اللہ ﷺ کو بھی وہ پیاری ہے۔ ان کا اشارہ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ی طرف تھا۔ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المومنین سیدہ ام سلمہ‬ ؓ ک‬ے پاس آیا جو میری رشتے دار تھیں۔ میں نے اس معاملے میں ان سے بات کی تو سیدہ ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے جواب دیا: اے ابن خطاب! تم عجیب آدمی ہو! ہر معاملے میں دخل اندازی کرتے ہو، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کی ازواج مطہرات کے متعلق بھی دخل دینے چلے ہو۔ اللہ کی قسم! ان کی اس بات نے میری ہمت پست کر دی، چنانچہ میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں آ کر مجھے بتاتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں مجلس کی باتوں سے آگاہ کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہمیں غسان کے ایک بادشاہ کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا کیونکہ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے خوف سے ہمارے سینے بھرے ہوئے تھے۔ ایک دن اچانک میرے دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ دروازہ کھولو، دروازہ کھولو۔ میں نے کہا: کیا غسانی چڑھ آئے؟ اس نے کہا: اس سے بھی اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو، چنانچہ میں نے اپنا لباس پہنا اور باہر نکل آیا۔ جب میں پہنچا تو رسول اللہ ﷺ اپنے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے جس پر آپ سیڑھی سے چڑھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ایک حبشی غلام سیڑھی کے کنارے پر موجود تھا۔ میں نے اسے کہا: رسول اللہ ﷺ سےعرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے، چنانچہ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر سارا واقعہ گوش گزار کیا۔ جب میں ام سلمہ‬ ؓ ک‬ی گفتگو پر پہنچا تو آپ مسکرانے لگے۔ اس وقت آپ کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے جسم مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہ تھی۔ آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے جب آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشانات دیکھے تو آبدیدہ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم کس بات پر رونے لگے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! قیصر و کسرٰی کو دنیا کی تمام سہولیات میسر ہیں اور آپ تو اللہ تعالٰی کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ’’کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصے میں دنیا ہے اور ہمارے حصے میں آخرت ہے؟‘‘