تشریح:
1۔ عائلی زندگی میں خانگی معاملات کے لیے بے لاگ احتساب کی یہ آخری صورت ہے جو ان آیات میں بیان کی گئی ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا! ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کوئی عام عورتیں نہ تھیں اور ان کے شوہر بھی کوئی عام انسان نہ تھے بلکہ وہ اس عظیم ہستی کی بیویاں تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامورفرمایا تھا، جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور آستین وقت کفار ومشرکین اور آستین کے سانپوں منافقین کے ساتھ مسلسل جہاد سے سابقہ درپیش تھا۔ ایسے حالات میں ان کے خلاف باہمی اتفاق سے منصوبہ سازی کی قطعاً گنجائش نہ تھی کہ ہمارے شوہر نامدار فلاں بیوی کو زیادہ وقت دیتے ہیں اور اس کے پاس شہد نوش کرتے ہیں، پھر انھیں اللہ تعالیٰ کی ایک حلال کردہ چیز کو اپنے آپ پر حرام قرار دینے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ ان کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا جائے کہ وہ ہستی ان سب سے الگ ہوکر ایک بالاخانہ میں خلوت گزینی پر مجبور ہو جائے۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا کہ تمھیں اس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ آخر مرد کو بیویوں کی ضرورت تو ہوتی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں، اس لیے اگر ہم دباؤ ڈالیں گی تو سب باتیں منظور کرلی جائیں گی، اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم سے بہتر بیویاں انھیں عنایت کر دے، پھر بہتر بیویوں کے انتخاب کے لیے عالمہ، فاضلہ، حافظہ اورقاریہ نہیں بلکہ ان کے اخلاق و کردار کو سامنے رکھا ہے۔