تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو مختلف طرق کے ساتھ کئی عنوانات کے تحت ذکر کیا ہے۔ إن شاء اللہ اس حدیث کے متعلق بحث کتاب القدر میں آئے گی۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حاصل یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کاتو کسی کو علم نہیں ہے وہ قادر مطلق ہے، وہ تقدیر کو جدھر چاہے پھیرنے پر قادر ہے، اس لیے ہمیں نیک تقدیر کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہنا چاہیے، البتہ اگر انسان نیک عمل کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ٹھکانا جنت میں لکھا ہے اور اگر برے کاموں میں مصروف ہوتو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اس کا ٹھکانا دوزخ میں بنایا گیا ہے، باقی اصل انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہو گا وہی جو اس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے۔
3۔ چونکہ تقدیر کا علم بندے کو نہیں دیا گیا ہےالبتہ اسے اچھی اور بری دونوں راہیں بتادی گئی ہیں، اس لیے ہمارا فرض منصبی یہ ہے کہ اچھی راہ کو اختیار کریں اور بُری راہ کے پاس نہ جائیں۔ واللہ اعلم۔