تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا توحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر یمامہ بھیجا۔ اس میں شہید ہونے والے اکثر حفاظ کرام تھے حتی کہ سالم مولی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو قرآن کریم کے بہت بڑے قاری تھے اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان قراء کی شہادت سے قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے، اس لیے انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآن مجید ایک جگہ جمع کرنے کے متعلق کہا۔اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں متفرق طور پر ہڈیوں، صحیفوں اور کھجوروں کی شاخوں پر مکمل قرآن تحریری شکل میں موجود تھا مگرتمام قرآن ایک صحیفے میں ایک جگہ پر جمع نہیں ہوا تھا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےکاتب وحی تھے، اس لیے قرآن کریم جمع کرنے کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی۔ وہ خود بھی قرآن کے حافظ تھے۔ انھوں نے اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے بہت احتیاط سے کام لیا۔
2۔ آپ نے جمع قرآن کے لیے دوچیزوں کو بنیاد قرار دیا۔ ©۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تحریر شد ہ ہو۔ ©۔ حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سلسلے میں آپ کے معاون تھے، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’تم مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو کوئی تمہارے پاس قرآنی آیت کے متعلق دو گواہ لائے اسے لکھ لو۔ دو گواہوں سے مراد حفظ اور کتابت ہے یا اس سے مراد دو گواہ ہیں جو گواہی دیں کہ یہ مکتوب آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی۔ بہرحال حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےشبانہ روز(رات دن) محنت سے قرآن کریم کو جمع کیا اور پھر ان صحیفوں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کر دیا۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔