تشریح:
1۔ عنوان کا تقاضا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن سناتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنا کرتے تھے اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سناتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اسے سنا کرتے تھے۔ ہمارے دور قرآن کا یہی مفہوم ہے کہ پہلے ایک حافظ پڑھتا ہے اور دوسرا سنتا ہے پھر دوسرا پڑھتا ہے اور پہلا سنتا ہے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر میں جو قرآن نازل ہوتا اسے رمضان کی تمام راتوں میں تقسیم کرتے۔ پھر رات کے کچھ حصے میں اس کا دور کرتے، تمام رات دور قرآن نہیں ہوتا تھا کیونکہ آپ کی دیگر مصروفیات بھی رات کو ہوتی تھیں۔ مثلاً: ©۔ رات کو تہجد پڑھتے۔ ©۔ اہل خانہ کے حقوق اور دیگر لوازمات پورے کرتے ©۔ کچھ رات آرام اور سکون کے لیے وقف کرتے۔
3۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم کے ساتھ خصوصی لگاؤ تھا۔ آپ اس کی حفاظت و نہگداشت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ واللہ اعلم۔