تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین رات کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن نہیں سمجھا۔‘‘ (سنن أبي داود، شهد رمضان، حدیث: 1390) ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’قرآن سات دن میں ختم کرو اور تین دن سے کم مدت میں تو ختم نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (سنن سعید بن منصور ، التفسیر، حدیث:143) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 2466)
2۔ اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ ختم قرآن کے لیے مدت کی کوئی حد مقرر نہیں بلکہ یہ مختلف احوال و مختلف اشخاص پر موقوف ہے۔ جو شخص تدبر سے پڑھنا چاہے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اتنی مدت میں ختم کرے کہ اصل مقصود یعنی تدبر و تفکر متاثر نہ ہو۔ اور جو شخص اہم معاملات یا مصالح میں مشغول ہے اس کے لیے اسی قدر مستحب ہے کہ مہمات دین میں خلل نہ آئے ہاں اگر کسی کو اہم مصروفیات نہیں ہے تو جس قدر زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکتا ہو پڑھ لے یہاں تک کہ اکتا نہ جائے اور اسے تیز تیز پڑھنے سے بھی بچے۔ (فتح الباري:121/9)