تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا تقاضا ہے کہ سات دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرنا چاہیے حالانکہ اسلاف سے کم مدت میں ختم کرنا منقول ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ حکم مخاطب کے ضعف اور عجز کے اعتبار سے ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ نہی تحریم کے لیے نہ ہو جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے یہ بات حدیث کے تمام طرق اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے۔
2۔ اہل ظاہر کا موقف محل نظر ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنا حرام ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر علمائے کے نزدیک اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی قوت و نشاط پر موقوف ہے اور یہ حالات واشخاص کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباري:122/9)