تشریح:
1۔ تلاوت قرآن کے وقت گریہ طاری ہونا عارفین کی صفت، کاملین کا طریقہ اور صالحین کا شعار ہےارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک وہ لوگ جنھیں اس سے پہلے علم دیا گیا تھا جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں (اور ان پر گریہ طاری ہو جاتا ہے)۔‘‘ (بني إسرائیل: 17۔109)
2۔ امام غزالی نے کہا ہےکہ تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب عمل ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت دل میں غم اور خوف کی کیفیت پیدا کی جائے اور قرآن میں جو وعید اور سختی کا ذکرہے، اسے دماغ میں حاضر کر کے غور و فکر کیا جائے کہ مجھ میں کہا کہاں کمی واقع ہوئی ہے اگر یہ کیفیت طاری نہ ہو تو اپنے پر رونا چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ (فتح الباري:123/9) ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ حضرت محمد بن فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنو ظفر میں تشریف لے گئے جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے۔ آپ نے ایک قاری کو حکم دیا تو اس نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کی۔ جب وہ مذکورہ آیت پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گریہ طاری ہوا حتی کہ آپ نے داڑھی کے دونوں کناروں اور رخساروں پر ہاتھ رکھ لیے اور کہا: ’’اے اللہ! میں ان لوگوں کے متعلق گواہی دوں گا۔ جن میں موجود ہوں ۔ پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جنھیں میں نے نہیں دیکھا ہے۔‘‘ (تفسیر ابن أبي حاتم، حدیث: 3584۔ و فتح الباري:124/9)