تشریح:
1۔ ان احادیث میں خارجی لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ جو بے انتہا ریا کار اور دینی روپ میں فسق و فجور پھیلانے والے تھے۔ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے وہی حال ان لوگوں کا ہو گا کہ اسلام میں آتے ہی اس سے باہر ہو جائیں گے۔ جس طرح تیر میں شکار کے خون وغیرہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہو گا اس کا کوئی اثر ان کے دلوں پر نہیں ہو گا۔ بظاہر دیندار لیکن ان کے دل نور ایمان سے یکسر خالی ہوں گے۔
2۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب تلاوت قرآن غیر اللہ کے لیے ہوگی تو ریا کاری اور شکم پروری (پیٹ پالنا) ہی ان کا مقصد ہوگا۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے سے جنت کا سوال کرو قبل اس کے کہ لوگ قرآن کی تعلیم کو ذریعہ معاش بنائیں گے کیونکہ قرآن کو تین قسم کے لوگ سیکھتے ہیں۔ ایک فخر و ریا کاری کےلیے۔ دوسرے شکم پروری کے لیے تیسرے محض اللہ کی رضا کے لیے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 258) بہر حال قرآن کریم کو محض اللہ کی رضا حاصل کرنے لیے پڑھنا اور سیکھنا چاہیے۔ (فتح الباري:126/9)