تشریح:
1۔ اس حدیث میں قرآن کریم کو ریا کاری کے طور پر پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے اور انھیں منافق قرار دیا گیا ہے۔
2۔ اس حدیث میں بیان کردہ تشبیہ و تمثیل دراصل موصوف کے وصف کی ہے جو خالص معقول معنی پر مشتمل ہے۔ یہ تشبیہ اس کی پوشیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ یعنی انسان کے ظاہر و باطن میں کلام اللہ کی تاثیر کار فرما ہے۔ اس میں لوگ مختلف ہیں بعض میں یہ تاثیر پوری ہوتی ہےاور وہ اس سے پوری طرح متاثر ہوتے ہیں اور وہ مومن قاری ہے بعض میں یہ تاثیر بالکل نہیں ہوتی وہ حقیقی منافق ہیں۔ بعض کا ظاہر تو متاثر ہوتا ہے لیکن باطن متاثر نہیں ہوتا وہ ریا کار لوگ ہوتے ہیں۔ اور بعض کا صرف باطن متاثر ہوتا ہے اور ظاہر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ مومن ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے۔ بہر حال اس حدیث میں قرآن کریم کو ریا کاری کے طور پر استعمال کرنے والوں کا ذکر ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے. واللہ اعلم۔