تشریح:
اس حدیث کے کئی ایک مفہوم بیان کیے گئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ©۔ جب تک قرآن کی تلاوت میں دل لگا رہے تو اسے پڑھتے رہو۔ جب دل اچاٹ ہو جائے تو چھوڑ دو کیونکہ حضور قلب کے بغیر قرآن کی تلاوت کرنا انتہائی نا مناسب ہے۔ ©۔ قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک تمھارے دل ملے جلے ہوں اور اختلاف و فساد کی نیت نہ ہو۔ پھر جب اختلاف پڑجائے۔ اور تکرار و فساد کی نیت ہو جائے تو قرآن پڑھنا موقوف کردو۔ ©۔ جب قرآن پڑھنے والوں میں الفت رہے تو قرآن پڑھتے رہو۔ جب اختلاف پیدا ہونے لگے تو جھگڑا نہ کرو بلکہ قرآن پڑھنا بند کردو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اختلاف قرآءت و لغات میں تھا اور انھیں اس قسم کا اختلاف چھوڑ دینے کا حکم ہوا تاکہ قرآءت متواترہ کا انکار نہ کر بیٹھیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آئندہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اسی معنی کی تائید میں بیان کی ہے کہ قرآءت و لغات کو جھگڑے، فساد اور اختلاف کی وجہ نہ بنایا جائے۔