تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں نو(9) ازواج مطہرات کے ذکر سے کثرت کو ثابت کیا ہے لیکن یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔ امت کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کو بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کی شرط لگائی گئی ہے، بصورت دیگر ایک پر اکتفا کیا جائے۔
(2) جو نو بیویاں آخری زندگی تک آپ کے نکاح میں تھیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:٭ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت سودہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما٭حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت زینب رضی اللہ عنہما٭ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما۔ ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر تھی، البتہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہما نے خوشی سے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو ہبہ کر دی تھی۔ نو بیویاں ہونے کے باوجود آپ کے عادلانہ رویے کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی بیوی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔
(3) دور حاضر میں کچھ روشن خیال لوگ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو مذموم فعل قرار دیتے ہیں۔ اس مغربی تخیل کی دو بنیادیں ہیں: پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغربی معاشرے میں مستحسن فعل کہا جاتا ہے اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا، لہٰذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو تو کم ازکم، یعنی ’’بچے دو ہی اچھے۔‘‘ کا مصداق ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو بلکہ اس ذمے داری کو اٹھانے کے بجائے بدکاری سے ہی کام چلتا رہے لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کےلیے ہر وقت تیار رہتا ہے مگر عورت کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔اسے ہر ماہ ایام حیض میں اس فعل سے نفرت ہوتی ہے، پھر حمل کی صورت میں،اس کے بعد ایام رضاعت میں بھی وہ اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی، البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کے بعد اس کام پر آمادہ ہوجائے تو الگ بات ہے۔ بسا اوقات عورت انکار بھی کردیتی ہے لیکن مرد اتنی مدت تک صبر نہیں کرسکتا۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو نکاح کرے یا فحاشی کی طرف مائل ہو جائے۔ اسلام نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے۔ وہ اس کی عفت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ اسے جنسی خواہش مٹانے کی اجازت دیتا ہے۔ عقل کے اعتبار سے اس میں بالکل کوئی خرابی نہیں ہے۔ والله اعلم