تشریح:
(1) شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک انسان کو بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ ان میں انصاف کیا جائے اور انسان ان کے حقوق ادا کرنے کی ہمت رکھتا ہو، البتہ بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا حرام ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخر میں نو بیویاں رکھی تھیں۔ اتنی بیویاں رکھنے کا مقصد نعوذ باللہ شہوت رانی یا عیاشی نہ تھا بلکہ دینی اور بہت سے دنیاوی مصالح کار فرما تھے۔ ان میں بھی کئی ایک بوڑھی بیوہ تھیں جنھیں صرف ملی اور قومی مفاد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں قبول فرما لیا تھا۔
(3) اس پر بھی بعض مغرب زدہ آزاد خیال عورتوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو چار چار عورتوں سے شادی کرے اور عورت صرف ایک ہی شوہر پر اکتفا کرے؟ اس قسم کا اعتراض تو کوئی گھٹیا اور انتہائی بے حیا عورت ہی کرسکتی ہے کہ اسے بھی بیک وقت چار مردوں سے شادی کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ اسلام کے عادلانہ قانون میں اگر مرد چار بیویاں رکھ لے تو اس سے نسب میں کوئی اختلاط پیدا نہیں ہوتا اور نہ وارثت کے مسائل میں کوئی الجھن ہی پیش آتی ہے۔ اس کے برعکس اگر عورت دو مردوں سے اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہو جاتا ہے کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے، عورت سے نہیں۔ اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر عورت کو چار شوہر رکھنے کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں؟ اس کے نان و نفقہ اور اس کی اولاد کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ اس اعتراض کو ہم ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں کہ جنسی خواہش جیسے انسانوں میں ہوتی ہے ایسے حیوانات میں بھی ہے اور مرد کو تو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ ہم گوالوں کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے دودھ کے لیے بیس بیس بھینسیں رکھی ہوتی ہیں اور ان کے ہاں بھینسا صرف ایک ہوتا ہے۔ کیا ایسا بھی کسی نے دیکھا ہے کہ کسی گوالے نے بھینسے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو؟ اب خود ہی غور فرمائیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوتا؟