تشریح:
(1) طبرانی کی روایت میں وضاحت ہے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھ پر تجرد کی زندگی بہت گراں ہے۔ آپ مجھے خصی ہونے کی اجازت دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ تم روزے رکھا کرو۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:38/9، رقم الحدیث: 8320) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی ہونے کی اجازت طلب کی تھی جسے راوی نے تبتل سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا مقصد تھا کہ بنیاد ہی کو ختم کر دیا جائے تا کہ ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کیونکہ وجود شہوت، تبتل کے منافی ہے، اس لیے اختصاء متعین ہے۔ اس سے ممانعت کا مقصد تکثیر نسل ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان تھوڑے رہ جائیں اور کفار کی کثرت ہو جائے۔ (فتح الباري: 149/9)
(2) بہر حال اسلام میں مجرد رہنے کو بہتر جاننے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ نکاح سے بے رغبتی کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے۔