تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک صورت معاملہ یوں ہے کہ اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزر کر اس تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان نماز کی وجہ سے قائم ہوا ہے تو نمازی کے لیے اس تعلق کو قائم رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے آگے سے گزرنے والے کو منع کرے، یعنی اسے نرمی سے متنبہ کرے۔ اگرباز نہ آئے تو سختی سے روکنے کی اجازت ہے۔ اگروہ اشارہ نہ مانے تو دھکا دے کر اسے روکا جائے، لیکن اس روکنے میں دھکم پیل اور مارپیٹ کی نوبت نہیں آنی چاہیے، کیونکہ ایسے اعمال نماز کے لیے باعث فساد ہیں۔ گزرنے والے کو روکنا تو نماز کی حفاظت کے لیے تھا، اگر اسے اس انداز سے روکا گیا کہ نماز ہی خراب ہوگئی تو’’گناہ لازم اور نیکی برباد‘‘والی صورت پیدا ہوجائے گی۔ امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اس حدیث کو بیان کیا ہے تو مطلق طور پر روکنے کا بیان ہے، خواہ نمازی نے سترہ رکھا ہو یا اس کے بغیر نماز پڑھ رہا ہو۔ الفاظ یہ ہیں: نمازی کو چاہیے کہ وہ گزرنے والے کو روکے، اگروہ نہ رکے تو اس کے ساتھ مزاحمت کرے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3274) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس نے ربط خیال اور تحفظ نماز کا بندوبست نہ کر کے خود کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے، بالخصوص جبکہ وہ عام گزرگاہ میں نماز پڑھ رہا ہو۔ مصنف عبدالرزاق میں سترے اور غیر سترے والی نماز کا فرق بیان کیا گیا ہے، اس بنا پر اگر کوئی نمازی سترے کے بغیر نمازپڑھتا ہے یا سترہ رکھنے کے باوجود اس سے دور کھڑا ہوتا ہے تو ایسی حالت میں آگے سے گزرنا گناہ نہیں اور نہ گزرنے والے کو روکنا ہی جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ ایسی حالت میں بھی نمازی کے سامنے سے نہ گزرا جائے۔ (فتح الباري:753/1) لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ احادیث کے ظاہری مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے کسی بھی حالت میں نہ گزرا جائے اور اگر کوئی گزرتا ہے تو اسے ر وکاجائے۔ ہاں! اگر گزرنے والا مجبور ہو کہ اسے اور کوئی راستہ نہیں ملتا اور وہ انتظار بھی نہیں کرسکتا تو امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی نمازی سے اتنا دور ہے کہ اسے عرف میں اس کے آگے سے گزرنے والا نہیں کہا جاسکتا تو ایسی صورت میں بھی گزرنا جائز ہے، گویا وہ سترے کے پیچھے سے گزر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امام ابن دقیق العید ؒ نے کچھ تفصیل بھی بیان کی ہے جسے ہم آئندہ بیان کریں گے۔
2۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ گزرنے والے کو روکنا ضروری نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اسے روک کر اپنی نماز کا تحفظ کرے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں، لیکن اہل ظاہر نے اسے واجب کہا ہے۔ شاید امام نووی ؒ ان کے اختلاف کو کسی خاطر میں نہیں لاتے یا انھوں نے اہل ظاہر کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا۔ گزرنے والے کو شیطان اس لے کہا گیا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مناجات کے تعلق کو ختم کردے جو شیطان کا کام ہے۔ (فتح الباري:754/1)
3۔ رسول اللہ ﷺ نے نمازی کو پابند کیا ہے کہ وہ آگے سے کسی کو نہ گزرنے دے۔ یہ حکم نماز کی حفاظت کے لیے ہے یا گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے؟ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ اہتمام گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اپنی نماز کے تحفظ کے لیے اسے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے، کیونکہ نمازی کے لیے اپنی نماز کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ دوسرے کو گناہوں سے باز رکھنا اپنی نماز کی حفاظت سے زیادہ اہم نہیں، کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ کسی کا نمازی کے آگے سے گزرنا اس قدر منحوس ہے کہ اس سے نصف اجر کی کمی ہوجاتی ہے، نیز حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر نمازی کو پتہ چل جائے کہ اس کے آگے سے گزرنا کس قدر ثواب کی کمی کا باعث ہے تو کبھی سترے کے بغیر نماز نہ پڑھے۔ یہ دونوں آثار اگرچہ موقوف ہیں، تاہم انھیں مرفوع کہا جائے گا، کیونکہ ایسی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، تاہم ان کا تقاضا ہے کہ نمازی کا یہ اہتمام اپنی نماز کی حفاظت کے لیے ہے، گزرنے ولے کو گناہ سے بچانا اس سے مقصود نہیں۔ (فتح الباري:755/1) ممکن ہے ہر دو مقاصد کے لیے نمازی کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ سترہ رکھ کر نماز پڑھے اور گزرنے والے کو متنبہ کرے تاکہ اس کی نماز بھی محفوظ رہے اور گزرنے ولا بھی گناہ سے بچ جائے۔ واللہ أعلم۔