قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَنْ قَالَ لاَ رَضَاعَ بَعْدَ حَوْلَيْنِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ} [البقرة: 233] وَمَا يُحَرِّمُ مِنْ قَلِيلِ الرَّضَاعِ وَكَثِيرِهِ

5102. حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَشْعَثِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ فَكَأَنَّهُ تَغَيَّرَ وَجْهُهُ كَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ فَقَالَتْ إِنَّهُ أَخِي فَقَالَ انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنْ الْمَجَاعَةِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”پورے دو سال اس شخص کے لیے جو چاہتا ہو کہ رضاعت پوری کرے اور رضاعت کم ہو جب بھی حرمت ثابت ہوتی ہے اور زیادہ ہو جب بھی۔“تشریح:یہ ضروری نہیں کہ پانچ بار چوسے آیت کریمہ (حولین کاملین) (البقرۃ:233)لاکر حضرت امام بخاری نے حنفیوں کا رد کیا ہے جو رضاعت کی مدت اڑھائی برس تک بتلاتے ہیں۔حنفی حضرات کہتے ہیں کہ دوسری آیت میں (حملہ و فصالہ ثلاثوں شھر) (الاحقاف:15)آیا ہے (اس کا حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہیں)اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں حمل کی اقل مدت چھ مہینے اور فصال کی چوبیس مہینے دونوں کی مدت تیس مہینے مذکور ہے یہ نہیں کہ حمل کی مدت تیس مہینے ہوئے فصال کی تیس مہینے جیسا تم نے سمجھا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری آیت میں(لمن ارادان یتم الرضاعۃ) (البقرہ:233) آیا ہے تو رضاعت کی اکثر سے اکثر مدت دو برس ہوگی اور کم مدت پونے دو برس ہیں حمل کی مدت نو مہینے جملہ تیس مہینے ہوئے اور رضاعت قلیل ہو یا کثیر اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی یہ ضروری نہیں ہے پانچ بار دودھ چوسے امام حنیفہ اور امام مالک ؓاور اکثر علماء کا یہی قول ہے لیکن امام شافعی اور امام احمد اور اسحاق اور ابن حزم اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ حرمت کے لئے کم سے کم پانچ بار دودھ چوسنا ضروری ہے ان کی دلیل حضرت عائشہؓ کی صحیح حدیث ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ قرآن میں اخیر حکم پانچ بار دودھ چوسنے کا تھا دوسری حدیث میں ہے کہ ایک بار یا دو بار چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

5102.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کے پاس ایک آدمی تھا۔ یہ دیکھ کر آپ کا چہرہ متغیر سا ہو گیا، گویا آپ نے اس کی موجودگی کو برا محسوس کیا۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”خوب غور کیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں؟ رضاعت تو بھوک سے ثابت ہوتی ہے۔“