تشریح:
(1) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین قسم کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی تھی۔ ان میں سے تیسری قسم ان عورتوں کی تھی جو بذاتِ خود آپ کو نکاح کی پیش کش کریں۔ اگر اپنا نفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ کو پسند آ جائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہوگا اور نہ ولی کی اجازت اور گواہوں کی ضرورت ہی ہوگی۔ عورت کا اپنا نفس ہبہ کر دینا ہی نکاح سمجھا جائے گا۔ ایسی عورتوں کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے مذکورہ حدیث میں تبصرہ کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں۔ میں کہتی: بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عورت اپنا آپ کسی کو ہبہ کر دے، لیکن قرآن کریم نے تبصرہ فرمایا: ’’یہ رعایت صرف آپ کے لیے ہے دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4788)
(2) ہبہ عورت کے حکم میں اختلاف ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے یا یہ حکم عام ہے؟ اس اختلاف کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں لفظ "هل" سے اشارہ کیا ہے۔ بہر حال دوسرے مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ وہ نکاح کی دیگر شرائط پوری کریں، یعنی ولی کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور حق مہر کی تعیین وغیرہ اس کے بعد نکاح صحیح ہوگا۔ والله اعلم