قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 322 .

5127. قَالَ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ ح و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوْ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ وَنِكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمْ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن‏» ”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا‏» ”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم‏» ”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“تشریح:روک رکھنے کا مطلب نکاح نہ کرنے دینا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روک رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتاان دونوں آیتوں میں اللہ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے بعض علماء نے حدیث لا نکاح الا بولی کو بالغہ اور مجنون عورت کے ساتھ خاص کیا ہے اور ثیبہ یعنی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ مسلم اور ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ میں حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ الایم احق بنفسھا من ولیھا یعنی بیوہ کو اپنے نفس پر ولی سے زیادہ اختیار ہے ۔اہلحدیث اور امام شافعی اور امام م احمد بن حمبل اور اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری نے اپنی شرط پر ہونے کی وجہ سے نہ لا سکے ہیں ایک ابوموسیٰ کی حدیث کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے ان کو صحیح کہا ابن ماجہ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا آپ نکاح کرے اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا کہ جو عورت بغیر اجازت ولی کے اپنا نکاح کرے اسی کا نکاح باطل ہے باطل ہے (وحیدی)

5127.

نبی ﷺ کی زوجہ محترم ام المو منین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک صورت تو یہی تھی جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا س کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجتا، پھر اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرتا، دوسری صورت یہ تھی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے کہتا جب وہ حیض سے پاک ہو جاتی: تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کرلے، اس مدت میں شوہر خود اس سے جدا رہتا اور اس سے ہم بستر نہ ہوتا، پھر جب اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہو جاتا جس سے اس نے منہ کالا کیا تھا، اس نے بعد اگر خاوند کی طبیعت چاہتی تو اس سے صحبت کرتا، اور ایسا اس لیے کرتے تھے تا کہ ان کا لڑکا اچھا اور خوبصورت پیدا ہو۔ یہ نکاح ''نکاح ستبضاع'' کہلاتا تھا۔ تیسری صورت یہ تھی کہ چند آدمی جو دس سے کم ہوتے کسی عورت کے پاس باری باری جاتے اور ان میں سے ہر ایک اس سے ہم بستر ہوتا، پھر جب وہ عورت حاملہ ہو جاتی تو وضع حمل کے چند دن بعد وہ ان تمام مردوں کو بلاتی، اس موقع پر ان میں سے کوئی آدمی انکار نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے تو وہ ان سے کہتی کہ تم اپنے حال کو خوب جانتے ہو! اب میں نے یہ بچہ جنم دیا ہے (پھر وہ کہتی) اے فلاں یہ بچہ تیرا ہے وہ جس کا چاہتی نام لے لیتی پھر وہ اس کا لڑکا سمجھا جاتا اور وہ شخص اس سے انکار کی جرات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ چوتھی صورت یہ تھی کہ بہت سے لوگ ایک فاحشہ عورت کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کو نہیں روکتی تھی۔ یہ فاحشہ ہوتی تھیں جنہوں نے اپنے دروازں پر جھنڈے لگا رکھے تھے جو ان کے لیے امتیازی نشان کی حثییت رکھتے تھے، جو کوئی بھی ان کے پاس جانے کی خواہش رکھتا ان کے پاس چلا جاتا، جب ان میں سے کوئی عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ جنم دیتی تو اس کے پاس آنے جانے والے سب لوگ جمع ہو جاتے اور کسی قیافہ شناس کو بلاتے وہ جس کے ساتھ بچے کی مشابہت دیکھتا اس کے ساتھ بچے کو لاحق کر دیتا، پھر وہ بچہ اس کا بیٹا کہا جاتا، وہ آدمی اس کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔ جب سیدنا محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے جاہلیت کے تمام کالعدم کر دیے صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔“