تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دور جاہلیت کے صرف چار نکاحوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ نکاح کی تین قسمیں اور تھیں جنھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان نہیں کیا اور وہ یہ ہیں: ٭ خفیہ نکاح: جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ خفیہ طور پر آشنا بنانے والی نہ ہوں۔‘‘ (النساء: 25) دور جاہلیت میں لوگ کہتے تھے کہ خفیہ بدکاری میں کوئی حرج نہیں، البتہ علانیہ بدکاری قابل مذمت ہے۔ ٭نکاح متعہ: عارضی طور پر چند دنوں کے لیے نکاح کرنا۔ اسے اسلام نے ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا ہے۔ ٭نکاح بدل: دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے سے کہتا تو اپنی بیوی میرے حوالے کر دے، میں اپنی بیوی تیرے حوالے کر دیتا ہوں۔ چونکہ یہ نکاح بے غیرتی اور بے حیائی پر مشتمل تھے۔ اس لیے اسلام نے حرام کر دیا۔صرف نکاح کی پہلی صورت کو برقرار رکھا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی پہلی صورت سے عنوان ثابت کیا ہے کہ نکاح سرپرست کے اختیار میں ہے کیونکہ حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ ایک مرد عورت کے سرپرست کو پیغام نکاح بھیجتا اور وہ حق مہر ٹھہرا کر اپنی زیر پرورش کا اس سے نکاح کر دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔