باب: کفائت میں مالداری کا لحاظ ہونا اور غریب مرد کا مالدار عورت سے نکاح کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The marriage of a poor man with a well-to-do lady)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5132.
سیدنا عروہ سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے درج زیک آیت کے متعلق سوال کیا: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے متعلق انصاف نہیں کرسکو گے۔ ۔ ۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! مذکورہ آیت میں اس یتیم لڑکی کا حکم بیان ہوا ہے جو اپنے سر پرست کی پرورش میں ہو اور وہ اس کی خوبصورتی اور مال داری کی وجہ سے اس میں دلچسپی رکھتا ہو کہ اس سے نکاح کر لے لیکن اس کا حق مہر پورا پورا ادا نہیں کرے۔ اس قسم کے سر پرستوں کو اپنی زیر کفالت یتیم بچیوں سے نکاح کرنا منع قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس صورت میں ان سے نکاح کرنے کی اجازت ہے جب وہ ان کا حق مہر انصاف کے ساتھ پورا پورا ادا کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں زیر کفالت بچیوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اس نے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے فتوی پوچھا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اور وہ (لوگ) آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔ ۔ ۔“ آخر تک۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے بیان کیا ہے کہ یتیم لڑکیاں اگر خوبصورت اور مال دار ہوں تو ان سے نکاح اور ان کے نسب میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پورا حق مہر ادا کر کے ان سے نکاح کر لیتے ہیں لیکن اگر ان میں حسن کی کمی اور مال کی قلت ہو تو پھر ان کی طرف رغبت نہیں ہوتی بلکہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کر لیتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے: جیسے وہ اس وقت یتیم لڑکی کو چھوڑ دیتے ہیں جب وہ نادار ہو اور خوبصورت نہ ہو ایسے ہی انہیں اس وقت بھی چھوڑ دینا چاہیئے جب وہ مال دار اور خوبصورت ہو، البتہ اگر اس کے حق میں انصاف کریں اور حق مہر پورا پورا ادا کریں تو اس سے نکاح کر سکتے ہیں۔
تشریح:
اس عنوان کے دو جز ہیں: ٭ ہم پلہ ہونے میں مال داری کو ملحوظ رکھنا۔ ٭ مفلس آدمی کا مال دار عورت سے نکاح کرنا۔ جب تنگ دست آدمی بوجہ قلت مال یا مال دار آدمی بوجہ بخل عورت کا حق مہر پورا ادا نہ کر سکے تو مال دار عورت سے اسے نکاح کرنے کی جازت نہیں ہے، اس سے عنوان کا پہلا جز ثابت ہوا اور اگر اس کا حق مہر پورا پورا ادا کر دے تو اسے نکاح کرنے کی اجازت ہے اگرچہ وہ عورت اس سے زیادہ مال دار ہو۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی مال دار ہو اور اس کا سر پرست تنگدست ہو تو حق مہر پورا پورا ادا کرنے کی صورت میں اسے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے مال داری میں ہم پلہ ہونا ثابت ہوا۔ (عمدة القاري: 36/14)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4895
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5092
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5092
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5092
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا عروہ سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے درج زیک آیت کے متعلق سوال کیا: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے متعلق انصاف نہیں کرسکو گے۔ ۔ ۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! مذکورہ آیت میں اس یتیم لڑکی کا حکم بیان ہوا ہے جو اپنے سر پرست کی پرورش میں ہو اور وہ اس کی خوبصورتی اور مال داری کی وجہ سے اس میں دلچسپی رکھتا ہو کہ اس سے نکاح کر لے لیکن اس کا حق مہر پورا پورا ادا نہیں کرے۔ اس قسم کے سر پرستوں کو اپنی زیر کفالت یتیم بچیوں سے نکاح کرنا منع قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس صورت میں ان سے نکاح کرنے کی اجازت ہے جب وہ ان کا حق مہر انصاف کے ساتھ پورا پورا ادا کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں زیر کفالت بچیوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اس نے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے فتوی پوچھا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اور وہ (لوگ) آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔ ۔ ۔“ آخر تک۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے بیان کیا ہے کہ یتیم لڑکیاں اگر خوبصورت اور مال دار ہوں تو ان سے نکاح اور ان کے نسب میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پورا حق مہر ادا کر کے ان سے نکاح کر لیتے ہیں لیکن اگر ان میں حسن کی کمی اور مال کی قلت ہو تو پھر ان کی طرف رغبت نہیں ہوتی بلکہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کر لیتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے: جیسے وہ اس وقت یتیم لڑکی کو چھوڑ دیتے ہیں جب وہ نادار ہو اور خوبصورت نہ ہو ایسے ہی انہیں اس وقت بھی چھوڑ دینا چاہیئے جب وہ مال دار اور خوبصورت ہو، البتہ اگر اس کے حق میں انصاف کریں اور حق مہر پورا پورا ادا کریں تو اس سے نکاح کر سکتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس عنوان کے دو جز ہیں: ٭ ہم پلہ ہونے میں مال داری کو ملحوظ رکھنا۔ ٭ مفلس آدمی کا مال دار عورت سے نکاح کرنا۔ جب تنگ دست آدمی بوجہ قلت مال یا مال دار آدمی بوجہ بخل عورت کا حق مہر پورا ادا نہ کر سکے تو مال دار عورت سے اسے نکاح کرنے کی جازت نہیں ہے، اس سے عنوان کا پہلا جز ثابت ہوا اور اگر اس کا حق مہر پورا پورا ادا کر دے تو اسے نکاح کرنے کی اجازت ہے اگرچہ وہ عورت اس سے زیادہ مال دار ہو۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی مال دار ہو اور اس کا سر پرست تنگدست ہو تو حق مہر پورا پورا ادا کرنے کی صورت میں اسے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے مال داری میں ہم پلہ ہونا ثابت ہوا۔ (عمدة القاري: 36/14)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ ؓ سے آیت ”اور اگر تمہیں خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم انصاف نہیں کر سکو گے۔“( سورۃ نساء) کے متعلق سوال کیا۔ عائشہ ؓ نے کہا میرے بھانجے اس آیت میں اس یتیم لڑکی کا حکم بیان ہوا ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کا ولی اس کی خوبصورتی اور مالداری پر ریجھ کر یہ چاہے کہ اس سے نکاح کرے لیکن اس کے مہر میں کمی کرنے کا بھی ارادہ ہو۔ ایسے ولی کو اپنی زیر پرورش یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے جب وہ ان کا مہر انصاف سے پورا ادا کریں گے اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر آیت میں ایسے ولیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی زیر پرورش یتیم لڑکی کے سوا کسی اور سے نکاح کر لیں۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ سے اس کے بعد سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں آیت ﴿و یَستفتُونَكَ فی النساءِ﴾ سے ﴿و تَر غَبُونَ أن تَنکِحُوھُن﴾ تک نازل کی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ یتیم لڑکیا ں اگر خوبصورت اور صاحب مال ہوں تو ان کے ولی بھی ان کے ساتھ نکاح کر لینا چاہتے ہیں، اس کا خاندان پسند کرتے ہیں اور مہر پورا ادا کر کے ان سے نکاح کر لیتے ہیں۔ لیکن ان میں حسن کی کمی ہو اور مال بھی نہ ہو تو پھر ان کی طرف رغبت نہیں ہو گی اور وہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کر لیتے ہیں۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس وقت یتیم لڑکی کو چھوڑ دیتے ہیں جب وہ نادار ہو اور خوبصورت نہ ہو ایسے ہی اس وقت بھی چھوڑ دینا چاہئے جب وہ مالدار اور خوبصورت ہو البتہ اگر اس کے حق میں انصاف کریں اور اس کا مہر پورا ادا کریں تب اس سے نکاح کر سکتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ursa (RA) : that he asked 'Aisha (RA) regarding the Verse: 'If you fear that you shall not be able to deal justly with the orphans (4.3) She said, "O my nephew! This Verse refers to the orphan girl who is under the guardianship of her guardian who likes her beauty and wealth and wishes to (marry her and) curtails her Mahr. Such guardians have been forbidden to marry them unless they do justice by giving them their full Mahr, and they have been ordered to marry other than them. The people asked for the verdict of Allah's Apostle (ﷺ) after that, so Allah revealed: 'They ask your instruction concerning the women . . . whom you desire to marry.' (4.127) So Allah revealed to them that if the orphan girl had beauty and wealth, they desired to marry her and for her family status. They can only marry them if they give them their full Mahr. And if they had no desire to marry them because of their lack of wealth and beauty, they would leave them and marry other women. So, as they used to leave them, when they had no interest, in them, they were forbidden to marry them when they had such interest, unless they treated them justly and gave them their full Mahr Apostle (ﷺ) said, 'If at all there is evil omen, it is in the horse, the woman and the house." a lady is to be warded off. And the Statement of Allah: 'Truly, among your wives and your children, there are enemies for you (i.e may stop you from the obedience of Allah)' (64.14)