تشریح:
(1) علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس شخص کے ولی ہیں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو، لہٰذا جب آپ نے اس مفلس آدمی کا نکاح اس عورت سے کر دیا تو آپ نے یہ نکاح ولی ہونے کی حیثیت سے کیا۔ (عمدة القاري: 85/14) لیکن اس مطابقت میں بہت بعد ہے کیونکہ عنوان یہ ہے کہ ولی خود اپنے ساتھ نکاح کرے لیکن اس حدیث میں جس کے ساتھ عورت کا نکاح کیا گیا وہ ولی کے علاوہ کوئی دوسرا ہے، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو پیش کرنے والی سے اعراض فرمایا، اگر آپ نکاح کرتے تو خود اپنے آپ کے ولی ہوتے یا کسی دوسرے کو نکاح کرانے کا حکم دیتے تو اس اطلاق سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ لیکن صحیح جواب یہ ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا کہ خود اپنے آپ سے نکاح کرائیں یا ولی کے بغیر نکاح کریں یا بغیر گواہوں کے یا لفظ ہبہ کے ساتھ نکاح کریں آپ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 238/9) والله اعلم
(2) ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس عورت کو پسند کرتے تو خود اپنا نکاح اس سے کرلیتے۔ والله اعلم