باب:آیت کریمہ ”اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے یعنی رضاعت کا بیان“۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "..your foster-mothers who gave you suck.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ جو رشتہ خون سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہوتا ہے۔تشریح:رضاعت یعنی دودھ پینے سے ایسا رشتہ ہو جاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت ‘اس کا خاوند جس سے دودھ ہے ‘اس کی بیٹی‘ماں‘بہن‘پوتی‘نواسی‘پھوپھی‘بھتیجی‘بھانجی‘باپ‘دادا‘نانا‘ بھائی‘پوتا ‘نواسہ‘چچا‘ بھتیجا‘بھانجا یہ سب شیر خوار کے محرم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ پانچ بار دودھ چوسا ہو اور مدت رضاعت یعنی دو برس کے اندر پیا ہو لیکن جس بچی یا بچے نے دودھ پیا اس کے باپ بھائی یا بہن یا ماں‘نانی‘خالہ‘ماموں وغیرہ دودھ دینے والی عورت یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوتے تو قاعدہ کلیہ یہ ٹھہرا کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب دودھ پینے والے کے محرم ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا اس کی اولاد صرف محرم ہوتی ہےاس کے باپ بھائی چچا‘ماموں‘ خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے (وحیدی)
5140.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے عرض کی گئی: آپ سیدنا حمزہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے ؟ آپ نے فرمایا: ”وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، یعنی رضاعی بھتیجی ہے۔“ بشر بن عمر نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں قتادہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے جابر بن زید سے اسی طرح اس حدیث کو سنا۔
تشریح:
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! رشتے ناتے کے لحاظ سے آپ کا رجحان قریش کی طرف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ کے پاس کچھ ہے جسے میں پسند کروں۔‘‘ انھوں نے کہا: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے شادی کر لیں جو آپ کے چچا کی بیٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ تو میرے لیے جائز نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الرضاع، حديث: 3581 (1446)) (2) حضرت حمزہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے رضاعی بھائی تھے اور نسب کے اعتبار سے آپ کے چچا تھے۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ثوبیہ لونڈی کا دودھ پیا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5101) (3) حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے نام کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں: امامہ، عمارہ، سلمیٰ، عائشہ، فاطمہ، امۃاللہ اور یعلی وغیرہ۔ بعض مؤرخین نے ام فضل بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ اس کی کنیت ہے۔ (فتح الباري: 178/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4903
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5100
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5100
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5100
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
مذکورہ عنوان ایک آیت کریمہ کا حصہ ہے ۔ اس آیت کریمہ میں تین قسم کے رشتوں کو حرمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ان میں ایک دودھ کے ذریعے سے حرام ہونے والے رشتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے دودھ کے احکام ومسائل کا آغاز کیا ہے،پھر ایک حدیث بیان کرکے ان رشتوں کی مزید وضاحت کی ہے۔بہرحال دودھ پینے سے ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، اس کا خاوند، اس کی بیٹی، ماں، بہن، پوتی، نواسی، پھوپھی، خالہ، باپ، بیٹا، دادا، نانا، بھائی، پوتا، نواسا اور چچا یہ سب شیر خوار کے محرم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ پانچ مرتبہ دودھ پیا ہو اور مدت رضاعت،یعنی دوسال کے اندر پیا ہو۔لیکن جس لڑکے یا لڑکی نے دودھ پیا ، اس باپ یا بھائی،بہن یا ماں، نانی، خالہ اور ماموں وغیرہ دودھ پلانے والی یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوں گے،گویا قاعدہ یہ ہے کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب لوگ دودھ پینے والے کے محرم ہوجاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا اس کی اولاد ہی محرم ہوتی ہے،اس کے باپ، بھائی، چچا،ماموں اور خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے۔والله اعلم
اور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ جو رشتہ خون سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہوتا ہے۔تشریح:رضاعت یعنی دودھ پینے سے ایسا رشتہ ہو جاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت ‘اس کا خاوند جس سے دودھ ہے ‘اس کی بیٹی‘ماں‘بہن‘پوتی‘نواسی‘پھوپھی‘بھتیجی‘بھانجی‘باپ‘دادا‘نانا‘ بھائی‘پوتا ‘نواسہ‘چچا‘ بھتیجا‘بھانجا یہ سب شیر خوار کے محرم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ پانچ بار دودھ چوسا ہو اور مدت رضاعت یعنی دو برس کے اندر پیا ہو لیکن جس بچی یا بچے نے دودھ پیا اس کے باپ بھائی یا بہن یا ماں‘نانی‘خالہ‘ماموں وغیرہ دودھ دینے والی عورت یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوتے تو قاعدہ کلیہ یہ ٹھہرا کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب دودھ پینے والے کے محرم ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا اس کی اولاد صرف محرم ہوتی ہےاس کے باپ بھائی چچا‘ماموں‘ خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے (وحیدی)
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے عرض کی گئی: آپ سیدنا حمزہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے ؟ آپ نے فرمایا: ”وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، یعنی رضاعی بھتیجی ہے۔“ بشر بن عمر نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں قتادہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے جابر بن زید سے اسی طرح اس حدیث کو سنا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! رشتے ناتے کے لحاظ سے آپ کا رجحان قریش کی طرف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ کے پاس کچھ ہے جسے میں پسند کروں۔‘‘ انھوں نے کہا: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے شادی کر لیں جو آپ کے چچا کی بیٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ تو میرے لیے جائز نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الرضاع، حديث: 3581 (1446)) (2) حضرت حمزہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے رضاعی بھائی تھے اور نسب کے اعتبار سے آپ کے چچا تھے۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ثوبیہ لونڈی کا دودھ پیا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5101) (3) حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے نام کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں: امامہ، عمارہ، سلمیٰ، عائشہ، فاطمہ، امۃاللہ اور یعلی وغیرہ۔ بعض مؤرخین نے ام فضل بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ اس کی کنیت ہے۔ (فتح الباري: 178/9)
ترجمۃ الباب:
اور جو رشتہ خون سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہوجاتا ہے
وضاحت: دودھ پینے سے ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، اس کا خاوند، اس کی بیٹی، ماں، بہن، پوتی، نواسی، پھوپھی، باپ، بیٹا، دادا، نانا، بھائی، پوتا، نواسا، چچا، بھتیجا، اور بھانجا یہ سب شیر خوار کے محروم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ پانچ مرتبہ دودھ پیا ہوا اور مدت رضاعت، یعنی دو سال کے اندر پیا ہو، لیکن جس لڑکے یا لڑکی نے دودھ پیا، اس کا باپ یا بھائی، بہن یا ما، نانی، خالہ اور ماموں وغیرہ دودھ پلانے والی یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوں گے گویا قاعدہ یہ ہے کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب لوگ دودھ پینے والے کے محرم ہوجاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا س کی اولاد ہی محرم ہوتی ہے اس کے باپ بھائی، چچا، ماموں، اور خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے حضرت جابر بن زید نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے کہا گیا کہ آنحضور ﷺ حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے دودھ کے بھائی کی بیٹی ہے۔ اور بشر بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے اسی طرح جابر بن زید سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثوبیہ کا دودھ پیا تھا جو ابولہب کی لونڈی تھی اس لئے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے دودھ بھائی قرار پائے۔ ایک دن ابوجہل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دی اور گالی بھی دی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے یہ واقعہ حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کو سنایا۔ وہ غصہ میں ابوجہل کے سامنے آئے اور کمان سے اس کا سر توڑ ڈالا اور کہا کہ لے میں خود مسلمان ہوتا ہوں تو کر لے کیا کرنا چاہتا ہے چنانچہ اسی دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ یہ چھٹے سال نبوت کا واقعہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمر میں بڑے تھے، احد میں شہید ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : It was said to the Prophet, "Won't you marry the daughter of Hamza?" He said, "She is my foster niece (brother's daughter). "