تشریح:
(1) دور جاہلیت میں دلھے کو رفاء اور بنین کے الفاظ سے دعا دی جاتی تھی جس کے معنی ہیں کہ تمہارے اندر اتفاق رہے اور تمہیں نرینہ اولاد ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے بجائے بارك الله لك......کے الفاظ سے دعا سکھائی ہے۔ چونکہ دور جاہلیت کی دعا میں اللہ کا نام نہیں تھا اور اس میں لڑکیوں سے بغض کی بو آتی تھی، اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلہے کے لیے اللہ کی طرف سے خیر و برکت کی دعا سکھائی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلہے کو ان الفاظ میں دعا دیتے (بَارَكَ اللهُ لكَ و بَاركَ عليكَ، و جَمَعَ بينَكُمَا في خير) (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1091)
(2) ایک دفعہ قاضی شریح کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آتے ہی اپنی شادی کی اطلاع دی تو انھوں نے بالرفاء و البنين کے الفاظ سے مبارک دی۔ ممکن ہے کہ قاضی شریح کو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی کا علم نہ ہوا ہو۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اس قدر جامعیت ہے کہ اس میں دنیا اور آخرت سے متعلق ہر قسم کی بھلائی آجاتی ہے۔ والله اعلم، (فتح الباري: 277/9)