تشریح:
1۔ ابن بطال شارح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اس باب میں امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب بچی کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو عورت کے نمازی کے سامنے سے گزرنے پر کیا اشکال ہو سکتا ہے؟ کیونکہ محض گزرنا کندھے پر اٹھانے سے کہیں معمولی بات ہے۔ (شرح ابن بطال:144/2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ نے بھی اسی استنباط کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں چھوٹی بچی کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عورت کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري:763/1) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں بچے کو اٹھانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، نیز اس قدر تھوڑا عمل نماز کے منافی نہیں۔ یہ عمل بوقت ضرورت جائز تو ہے مگر دور حاضر میں علماء حضرات کو اس سے احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ جو چیزیں عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتراض ہوں انھیں عام طور پر بلاوجہ اختیار کر لینے سے الجھن پیدا ہوتی ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ احکام ومسائل میں وسعت کے پیش نظر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھارکسی خاص موقع پر اگر کسی نے اپنے کسی پیارے بچے کو دوران نماز میں کندھے پر بٹھا لیا تو اس سے نماز فاسد نہ ہو گی، لیکن احتیاط کا دامن کسی وقت بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔