Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Beating the tambourine during marriage ceremony and the wedding banquet)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5187.
سیدنا خالد بن ذکوان سے روایت ہے وہ سیدنا ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب میری رخصتی ہوئی تو نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے۔ اس دوران میں ہماری چھوٹی چھوٹی بچیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور میرے آباء و اجداد جو غزوہ بدر میں شہید ہو چکے تھے ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ ان میں سے ایک بچی نے اچانک کہہ دیا : ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتوں کی خبر رکھتا ہے جو آئیندہ کل آنے والی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کہنا چھوڑ دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔“
تشریح:
(1) مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے آج بھی نکاح یا ولیمے کے موقع پر دف کا استعمال جائز ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں: ٭دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس میں گھنگرو کی جھنکار نہیں ہونی چاہیے۔ ٭دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں کیونکہ ان آلات کی حرمت پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ ٭خوشی کے موقع پر صرف رزمیہ اشعار پڑھے جائیں جو شجاعت و بہادری پر مشتمل ہوتے ہیں، بزمیہ قسم کے اشعار پڑھنے سے اجتناب کیا جائے جو ہیجان انگیز اور عشقیہ ہوتے ہیں۔ ٭جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں ہی ایسے موقع پر گنجائش سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے سے کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ان پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ٭یہ اہتمام ایسے حلقے میں ہو جہاں عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کا دل بہلانے کے لیے اس قسم کی محفل کا اہتمام کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ ٭وہ اشعار خلاف شریعت مضامین پر مشتمل نہ ہوں۔ اگر شریعت سے متصادم اشعار ہوں تو ان پر پابندی لگانا شریعت کا عین تقاضا ہے۔ مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ والله اعلم (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء کے بستر پر ان کے پاس بیٹھے۔ یہ آپ کی خصوصیت تھی کہ آپ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کر سکتے تھے اور اسے دیکھ بھی سکتے تھے جیسا کہ آپ ام حرام بنت ملحان کے پاس تشریف لےجاتے، ان کے گھر آرام فرماتے اور وہ آپ کے سرمبارک کو آرام پہنچاتی تھیں، حالانکہ وہ آپ کی محرمہ نہ تھی اور نہ ان کے ساتھ زوجیت ہی کا تعلق تھا۔ (فتح الباري: 254/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4947
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5147
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5147
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5147
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
دف میں گھنگھرو کی جھنکار نہیں ہوتی بلکہ وہ موسیقی کے بغیر سارہ ہوتی ہے، خوشی کے موقع پر اسے بجانے میں کوئی حرج نہیں۔ دیہاتوں میں اس کا متبادل گھڑا اور پرات وغیرہ ہے جسے ایسے موقع پر بجایا جاتا ہے، موسیقی کے ساتھ گانا بجانا اور حیا سوز غزلیہ پڑھنا حرام اور نا جائز ہے
سیدنا خالد بن ذکوان سے روایت ہے وہ سیدنا ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب میری رخصتی ہوئی تو نبی ﷺ تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے۔ اس دوران میں ہماری چھوٹی چھوٹی بچیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور میرے آباء و اجداد جو غزوہ بدر میں شہید ہو چکے تھے ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ ان میں سے ایک بچی نے اچانک کہہ دیا : ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتوں کی خبر رکھتا ہے جو آئیندہ کل آنے والی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کہنا چھوڑ دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے آج بھی نکاح یا ولیمے کے موقع پر دف کا استعمال جائز ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں: ٭دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس میں گھنگرو کی جھنکار نہیں ہونی چاہیے۔ ٭دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں کیونکہ ان آلات کی حرمت پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ ٭خوشی کے موقع پر صرف رزمیہ اشعار پڑھے جائیں جو شجاعت و بہادری پر مشتمل ہوتے ہیں، بزمیہ قسم کے اشعار پڑھنے سے اجتناب کیا جائے جو ہیجان انگیز اور عشقیہ ہوتے ہیں۔ ٭جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں ہی ایسے موقع پر گنجائش سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے سے کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ان پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ٭یہ اہتمام ایسے حلقے میں ہو جہاں عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کا دل بہلانے کے لیے اس قسم کی محفل کا اہتمام کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ ٭وہ اشعار خلاف شریعت مضامین پر مشتمل نہ ہوں۔ اگر شریعت سے متصادم اشعار ہوں تو ان پر پابندی لگانا شریعت کا عین تقاضا ہے۔ مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ والله اعلم (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء کے بستر پر ان کے پاس بیٹھے۔ یہ آپ کی خصوصیت تھی کہ آپ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کر سکتے تھے اور اسے دیکھ بھی سکتے تھے جیسا کہ آپ ام حرام بنت ملحان کے پاس تشریف لےجاتے، ان کے گھر آرام فرماتے اور وہ آپ کے سرمبارک کو آرام پہنچاتی تھیں، حالانکہ وہ آپ کی محرمہ نہ تھی اور نہ ان کے ساتھ زوجیت ہی کا تعلق تھا۔ (فتح الباري: 254/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا، کہ ربیع بنت معوذابن عفراء ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی آنحضرت ﷺ اندر تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے اسی طرح جیسے تم اس وقت میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے باپ اور چچا جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے، ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اتنے میں ان میں سے ایک لڑکی نے پڑھا، اور ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتو ں کی خبر رکھتا ہے جو کچھ کل ہونے والی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو۔ اس کے سوا جو کچھ تم پڑھ رہی تھیں وہ پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
اس لڑکی کو آپ نے ایسا شعر پڑھنے سے منع فرما دیا کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے عالم الغیب صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ قرآن پاک میں صاف اس کی صراحت مذکور ہے۔ مرقاۃ میں ہے کہ وہ دف جو بجارہی تھیں ان میں گھنگروں جیسی آواز نہیں تھی و کان و لھن غیر مصحوب بجلاجل اس سے آج کل کے گانے بجانے پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گانوں بجانوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ایسے تمام گانوں بجانوں کو مٹانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے صلی اللہ علیہ وسلم، قال في الفتح و إنما أنکر علیها ما ذکر من الإطراءحیث أطلق علم الغیب به و ھي صفة تختص باللہ تعالیٰ یعنی آپ نے اس لڑکی کو اس شعر کے پڑھنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں مبالغہ تھا اور علم الغیب کا اطلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیا گیا تھا حالانکہ یہ ایسی صفت ہے جو اللہ کے ساتھ خاص ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ar-Rabi': (the daughter of Muawwidh bin Afra) After the consummation of my marriage, the Prophet (ﷺ) came and sat on my bed as far from me as you are sitting now, and our little girls started beating the tambourines and reciting elegiac verses mourning my father who had been killed in the battle of Badr. One of them said, "Among us is a Prophet (ﷺ) who knows what will happen tomorrow." On that the Prophet (ﷺ) said, "Leave this (saying) and keep on saying the verses which you had been saying before."