تشریح:
(1) انسان کی بیوی بچوں پر لفظ اہل کا اطلاق ہوتا ہے۔ بیوی کےلیے اہلیہ کا اطلاق اسی سے ماخوذ ہے۔ ارشاد بار تعالیٰ کا مطلب ہے کہ تم اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی فکر کرو۔انھیں گناہ کرنے سے باز رکھو، نیک کام کرنے پر آمادہ کرو۔ انھیں آداب و اخلاق سکھاؤ، شر اور سرکشی سے منع کرو۔ قرآن کریم میں اپنے اہل و عیال کے متعلق درج ذیل دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے: ’’وہ (رحمٰن کے بندے) دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔‘‘ (الفرقان: 74)
(2) بیوی اور اولاد سے انسان کو فطری طور پر محبت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ دونوں اس کے لیے آزمائش کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لہٰذا ہر مسلمان کو ان کے حق میں دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر جہنم کا ایندھن اور اس کے لیے پریشانیوں کا باعث نہ بنیں۔ بہتر انسان وہ ہے جو خود بھی نیک ہو اور اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی خیر خواہی کے جذبات رکھے، محبت اور نرمی سے گھر کا نظام بہتر بنائے، اپنے اہل خانہ سے خوش اخلاقی کا برتاؤ کرے اور انھیں جہنم سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔