صحیح بخاری
67. کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
51. باب:قرآن کی تعلیم مہر ہو سکتی ہے اس طرح اگر مہر کا ذکر ہی نہ کرے تب بھی نکاح صحیح ہو جائے گا (اور مہر مثل لازم ہو گا)
باب:قرآن کی تعلیم مہر ہو سکتی ہے اس طرح اگر مہر کا ذکر ہی نہ کرے تب بھی نکاح صحیح ہو جائے گا (اور مہر مثل لازم ہو گا)
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: To marry (a lady to) a man for what he knows of the Qur'an)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5189.
سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں صحابہ کی جماعت کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا، اتنے میں ایک خاتون کھڑی ہوئی اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں خود کو آپ لے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ آپ اس بارے میں اپنی رائے قائم کر لیں آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ پھر کھڑی ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! آپ کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے آپ جو چاہیں کریں۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہ دیا۔ وہ تیسری مرتبہ کھڑی ہوئی اور عرض کی: اس نے اپنا آپ آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے، اس نے اپنی رائے دیکھیں۔ تب ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟“ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ چنانچہ وہ گیا پھر واپس آ کر عرض کرنے لگا کہ میں نے وہاں کچھ نہیں پایا، لوہے کی انگوٹھی نہیں ملی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا: ”تمہارے پاس کچھ قرآن ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں، مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جاؤ، میں نے تمہارا نکاح اس سے کر دیا اس قرآن کے عوض جو تجھے یاد ہے۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن تو اپنا معاملہ میرے حوالے کر دے۔‘‘ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور ایک آدمی کو بلا کرکہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ تیرا نکاح اس سے کر دوں، کیا تو راضی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جو آپ نے انتخاب کیا وہ مجھے پسند ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس کا نکاح کر دیا۔ (فتح الباري: 259/9) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالی حق مہر کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض قرآن کی تعلیم دینے پر اس کا نکاح کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ نکاح کے لیے مالی حق مہر کا ہونا ضروری نہیں بلکہ فریقین جس پر اتفاق کر لیں وہ حق مہر ہو سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہما کو پیغام نکاح بھیجا تو انھوں نے جواب دیا کہ تیرے جیسے آدمی کا پیغام مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن تو کافر ہے اور میں مسلمان ہوں، ایسے حالات میں میرا نکاح آپ سے حلال نہیں ہے، ہاں اگر تو مسلمان ہو جائے تو تیرا اسلام ہی میرا حق مہر ہوگا اور میں اس کے علاوہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کروں گی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے اور یہی اسلام لانا ہی ان کا حق مہر ٹھہرا۔ (سنن النسائي، النکاح، حدیث: 3343) امام نسائی نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے (باب التزوج على سور من القرآن) ’’اسلام لانے کے عوض نکاح کرنا۔‘‘ اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر انھوں نے یہ باب قائم کیا ہے: (التزوج على الإسلام) ’’کسی سورت کی تعلیم کے عوض نکاح کرنا۔‘‘ معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے مالی حق مہر کا ہونا ضروری نہیں۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4949
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5149
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5149
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5149
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
جب نکاح کے وقت مہر کی مقدار مقرر نہ ہو یا سرے سے اس کا ذکر ہی نہ کیا جائے تو اس مہر کی وہ مقدار ہوگی جسے شرع میں مہر مثل کہا جاتا ہے اور یہ عورت کے باپ کے کنبے کی عورتوں کے مہر پر قیاس کرکے مقرر کیا جاتا ہے،مثلاً: اس کی پدری بہنیں یا پھوپھیاں یا چچا زاد بہنیں،ان کا حق مہر دیکھا جائے گا۔واضح رہے کہ مہر مثل صرف ان صورتوں میں لیا جاتا ہے جن میں نکاح شرعاً جائز اور صحیح ہو۔ناجائز نکاح میں اگر حق مہر کا ذکر نہ کیا جائے تو مہر مثل نہیں دیا جائے گا۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں صحابہ کی جماعت کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا، اتنے میں ایک خاتون کھڑی ہوئی اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں خود کو آپ لے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ آپ اس بارے میں اپنی رائے قائم کر لیں آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ پھر کھڑی ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! آپ کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے آپ جو چاہیں کریں۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہ دیا۔ وہ تیسری مرتبہ کھڑی ہوئی اور عرض کی: اس نے اپنا آپ آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے، اس نے اپنی رائے دیکھیں۔ تب ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟“ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ چنانچہ وہ گیا پھر واپس آ کر عرض کرنے لگا کہ میں نے وہاں کچھ نہیں پایا، لوہے کی انگوٹھی نہیں ملی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا: ”تمہارے پاس کچھ قرآن ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں، مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جاؤ، میں نے تمہارا نکاح اس سے کر دیا اس قرآن کے عوض جو تجھے یاد ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن تو اپنا معاملہ میرے حوالے کر دے۔‘‘ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور ایک آدمی کو بلا کرکہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ تیرا نکاح اس سے کر دوں، کیا تو راضی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جو آپ نے انتخاب کیا وہ مجھے پسند ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس کا نکاح کر دیا۔ (فتح الباري: 259/9) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالی حق مہر کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض قرآن کی تعلیم دینے پر اس کا نکاح کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ نکاح کے لیے مالی حق مہر کا ہونا ضروری نہیں بلکہ فریقین جس پر اتفاق کر لیں وہ حق مہر ہو سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہما کو پیغام نکاح بھیجا تو انھوں نے جواب دیا کہ تیرے جیسے آدمی کا پیغام مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن تو کافر ہے اور میں مسلمان ہوں، ایسے حالات میں میرا نکاح آپ سے حلال نہیں ہے، ہاں اگر تو مسلمان ہو جائے تو تیرا اسلام ہی میرا حق مہر ہوگا اور میں اس کے علاوہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کروں گی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے اور یہی اسلام لانا ہی ان کا حق مہر ٹھہرا۔ (سنن النسائي، النکاح، حدیث: 3343) امام نسائی نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے (باب التزوج على سور من القرآن) ’’اسلام لانے کے عوض نکاح کرنا۔‘‘ اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر انھوں نے یہ باب قائم کیا ہے: (التزوج على الإسلام) ’’کسی سورت کی تعلیم کے عوض نکاح کرنا۔‘‘ معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے مالی حق مہر کا ہونا ضروری نہیں۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا میں نے ابو حازم سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے سہل بن سعد ساعدی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں لوگوں کے ساتھ رسو ل اللہ ﷺ ؑکی خدمت میں حاضر تھا اس میں ایک خاتون کھڑی ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبا کرتی ہوں آپ اب جو چاہیں کریں۔ حضور اکرم ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ پھر کھڑی ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کر دیا ہے حضور جو چاہیں کریں۔ حضور اکرم ﷺ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ تیسری مرتبہ کھڑی ہوئیں اور کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو حضور ﷺ کے لئے ہبہ کر دیا، حضور جو چاہیں کریں۔ اس کے بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا نکاح مجھ سے کر دیجئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے پا س کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور تلاش کرو ایک لوہے کی انگوٹھی بھی اگر مل جائے لے آؤ۔ وہ گئے اور تلاش کیا، پھر واپس آ کر عرض کیا کہ میں نے کچھ نہیں پایا، لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ملی۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس کچھ قرآن ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ میرے پاس فلاں فلاں سورتیں ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر جاؤ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس قرآن پر کیا جو تم کو یاد ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad As-Sa'idi (RA) : While I was (sitting) among the people in the company of Allah's Apostle (ﷺ) a woman stood up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! She has given herself in marriage to you; please give your opinion of her." The Prophet (ﷺ) did not give her any reply. She again stood up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! She has given herself (in marriage) to you; so please give your opinion of her. The Prophet (ﷺ) did not give her any reply. She again stood up for the third time and said, "She has given herself in marriage to you: so give your opinion of her." So a man stood up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Marry her to me." The Prophet (ﷺ) asked him, "Have you got anything?" He said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Go and search for something, even if it were an iron ring." The man went and searched and then returned saying, "I could not find anything, not even an iron ring." Then the Prophet (ﷺ) said, "Do you know something of the Qur'an (by heart)?" He replied, "I know (by heart) such Sura and such Sura." The Prophet (ﷺ) said, "Go! I have married her to you for what you know of the Qur'an (by heart)."